• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا امریکی صدر کی ”سنوڈن لیکس “پرہزیمت 1998ء میں صدر بل کلنٹن کی مانیکا لونیسکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والی ذلت ، خواری اور رسوائی سے مماثلت رکھتی ہے ؟ایڈورڈسنوڈن نے کیا انکشاف کیا ہے؟”امریکہ 2009 ء سے سائبراٹیک میں ملوث ہے اور پورے عالم کے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ ہر سال 97 بلین معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں اور پوری دنیا کے گھروں میں گھس کر لوگوں کی ذاتی زندگی سے لے کر دفاعی اداروں سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہا ہے“۔ ساڑھے 13 بلین معلومات بنا پاکستان فہرست میں”دوئم“ رہاجبکہ ایران نمبرون ۔سابق امریکی وزیر ِ خارجہ ہنری کسنجرنے کیا خوب کہا ۔” امریکہ کا کوئی دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتا البتہ مفادات ہمیشہ مستقل ہوتے ہیں“۔ پچھلے 100 سال سے استعمارنے توسیعات کی ”ات “ مچا رکھی ہے۔ خصوصاََ پچھلی دو تین دہائیوں سے تو اسے بال کھجانے کی فرصت نہیں۔2 ہفتے پہلے کیلیفورنیا میں چینی صدر کی آمد اور اوباما سے ملاقات کے دوران امریکہ میڈیااور حکومتی حلقوں نے آداب میزبانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چینی صدر کو انسانی حقوق اور اخلاقیات کے درس کے پردے میں تضحیک کا نشانہ بنایا۔ چینی صدر روایتی پختگی، تدبراور صبرو تحمل سے اپنے کام میں مگن رہے۔اللہ کاایک نظام چینی صدر کا جہاز بمشکل فضا میں بلند ہی ہوا تھا کہ امریکی دفاعی ایجنسی کے ایک ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے بھری دنیامیں امریکی لبادے تارتار کر دیئے۔
حال ہی میں امریکہ کے طالبان کے سامنے دوزانو ہونے کی خبریں آئیں کہ دوحہ (قطر)میں طالبان کی تقریباً ساری شرائط پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے طالبان کو تقریباً جلاوطن حکومت کا درجہ دے دیا۔طالبان ترانے کی دھن پر اسلامی امارات افغانستان کی تختی آویزاں ہوئی اور جھنڈا لہرایا گیا۔آخری اور تازہ خبر کہ افغان صدر اپنے محل میں بھی غیرمحفوظ اور صدارتی محل اور سی آئی اے دفاتر طالبان توپوں کی زد میں نقصان کا تخمینہ معلوم نہیں۔ کرزئی صاحب کی چیں بچیں کہ امریکی جھوٹے، مکار، اور دغا باز ہیں فضول گفتگو ہے۔ حضور آپ 30 سال سے سی آئی اے کے تنخواہ داررہے مکاری کی خبر اتنی دیر سے کیوں پہنچی؟ ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی زعم، رعونت اور ڈبل سٹینڈرڈ کو طشت ازبام کیاکیا؟ چوہدری صاحب کو غصہ ٹھنڈا کرنے اوراپنی عوام کی توجہ بڑے جرائم سے ہٹانے کے لئے میراثی کے بیٹے کی ہڈیاں توڑنا ضروری ہو گیا۔13 جون 2013ء کو صدر اوباما نے بدقسمت فیصلہ کر ہی دیاکہ شام میں حکومت مخالفین کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے گا۔ایسا عمل روس کے منہ پربھی ایک زناٹے دار تھپڑہے ۔ ملاحظہ وجہ کہ صدربشر الاسد حکومت مخالفین کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کر رہی ہے جبکہ یواین او اورآزاد انسانی حقوق کے ادارے اس الزام کی تصدیق نہیں کر پائے۔
WMD کے نام پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ 2013ء کے عراق اور 2003ء کے عراق کا موازنہ کرکے امریکہ سے کوئی پوچھے کہاں گئے WMD؟ تاسف، شرمندگی ایشوہے ہی نہیں۔ شام میں افغانستان ، عراق اور لیبیا کوہی تودہرایا جا رہا ہے۔ اسلحہ اور بارود سے لیس کرنے کا اعلانG-8 میٹنگ کی بے توقیری ہی تو تھی وہیں پر روسی اور امریکی صدور نے اکیلے میں ملنا تھاچنانچہ اعلان چند دن کے لئے موخر بھی ہو سکتا تھا ۔باہمی ملاقات کا ماحول بھی خوشگوار رہتاجبکہ G-8 کے ایجنڈے میں شام حکومت اورمتحارب گروہوں کو ایک میز پر بٹھانابھی شامل تھا۔ کیا یہ اصول مسلم ہو چکا کہ امریکہ اقوامِ عالم کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اور دنیا کو کسی بھی بھیانک انجام سے دوچار کرنے کی تیاری کر چکا ہے؟
جنیوا 2 کانفرنس جو مسئلے کے پرامن حل کی شاید آخری امیدتھی ۔اوباما اعلان مذکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہی توہے ۔امریکہ پہلے ہی شرائط کا ابنوہ کھڑا کر چکا ہے جس میں ایک احمقانہ شرط یہ بھی ہے کہ بشر الاسد جنیوا 2 کانفرنس سے پہلے مستعفی ہوجائیں۔ پچھلے دنوں شامی فوج اور حزب اللہ کی ”قشیر“پر قبضہ نے امریکی کیمپ میں سراسمیگی ضرور پیدا کر دی۔ اب جبکہ ”ایپسو“ کو آزاد کرانے کی جنگ شروع ہو چکی ہے، اسرائیل اور امریکہ کا خوف کہ باغیوں کی کمر ٹوٹ گئی یا جہادیوں کو جنرل سالم ادریس کی ملائیشیا پر فوقیت حاصل ہوگئی تو حصول ِ مفاد میں ناکامی ہو گی۔ امریکی بدقسمتی کہ جنیوا 2 کے لئے جہادیوں اور سپریم ملٹری کونسل اپنامتفقہ لیڈر اور لائحہ عمل بھی طے نہیں کرپائے۔ایسے موقع پر ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کا امریکی ساکھ کو چوٹ لگانا شیر کو زخم خوردہ کر کے ذلیل کرنا ہی تو تھا۔5 سال پہلے اوباماجب ”تبدیلی“ کے نعرہ پر صدارتی انتخابی مہم چلا رہا تھا تواقوال زریں کیا تھے” رجاجیت، شفافیت، جوابدہی، ذمہ داری، جائز استحقاق ، ہمہ جہتی، مجموعی قومی رائے کو امریکہ کا مستقبل بناؤں گا“۔ 5 سال کے بعدآج انہی اقدار ہی کا تو جنازہ نکال چکے۔ سنوڈن کے انکشافات سے عالمی سیاست اور سفارت پرکیا اثرات مرتب ہوں گے اس موضوع پر طبع آزمائی آنے والے دنوں میں سوچنے اور لکھنے والوں کی ضرورت رہے گی ۔
امریکی صدور جب بھی اخلاقی بحران میں جکڑے جائیں تو بھیانک روش کیوں اختیار کرلیتے ہیں؟ 15 سال پہلے بل کلنٹن نے جنسی سکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لئے قندھار پر میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی۔امریکی پارلیمنٹ صدر کلنٹن کو معزول کرنے کیلئے تفتیش شروع کر چکی تھی کہ اگست 1998ء میں قندھارپر قیامت ڈھا دی گئی، ٹریلین ڈالرز کی جنگ لڑی گئی، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔9/11 اور ایف پاک بحران اسی جنسی سیکنڈل کی کوکھ ہی سے تونکلا ہے۔ صدارتی ہزیمت کی افغانستان اور پاکستان کو ایسی کڑی سزا۔ عوام کی تو جہ ہٹانے کیلئے اب شام میں جلتی آگ پر تیل ڈالا جارہا ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے چند دن کے اندر ہی شام میں اسلحہ اور بارود کی ذخیرہ اندوزی کا ارادہ چہ معنی۔
کیا امریکہ اور اتحادیوں کو معلوم نہیں کہ شام لیبیا نہیں۔ شام کی خانہ جنگی اور بربادی پورے مشرقِ وسطی کو برباد کرسکتی ہے ۔ علاقے کا نقشہ بدل سکتی ہے ۔فلسطین ، اردن ،لبنان براہ راست زد میں ہیں۔ اس میں کوئی باک نہیں کہ بشر الاسد کے نظریاتی اور حکومتی ہتھکنڈوں نے شامیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ اکثریتی سنی مسلمانوں کا جینا محال تھا ۔اکثر جہادی تنگ آمد بجنگ کے مصداق مصروف جنگ ہیں۔ جب سے ایران کا شام، لبنان اور فلسطین میں اثرورسوخ بڑھاہے تب سے امریکہ نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ٹھان لی۔ پچھلے ہفتے آٹھ بڑوں کی بیٹھک بھی کسی طوفان کے تھمنے کا پیش خیمہ نہ کر سکی ۔کیا شام کی جنگ اور یورپ میں بیلسٹک ڈیفنس میزائل کی تنصیبات دنیا کو دائمی دارالحرب بنانے کا سماں باندھ رہی ہیں۔ صدر پیوٹن امریکی سفارت خانے کی ماسکو میں نقل و حرکت اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ راہ رسم کو خش مگین نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ شکایت بھی کی کہ سفارت خانے ملکوں کو قریب لانے کے لئے کھولے جاتے ہیں جبکہ امریکی سفارت خانے دوسرے ملکوں میں افراتفری، سراسمیگی، خانہ جنگی جیسا ماحول پیدا کرنے کیلئے ہمہ وقت ہمہ تن روبہ عمل ہیں۔ اگر امریکہ کی دگردوں اکانومی امریکی مفادات میں تغیر کا باعث نہ بنی تو پھر نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال۔ امریکا اپنے 110 سال سے طے شدہ ”مستقل مفادات “کے تحفظ اور حصول کیلئے دنیا کو تیسری ہولناک جنگ کے دہانے پر پہنچانے پر ڈٹ چکا ہے ۔ کیا روس اور چین اقوام ِ عالم کو آگ اور خون سے بچانے کی ذمہ داری قبول کریں گے؟
Tailpiece : صرف دہاڑی دارلکھاریوں کا نہیں بلکہ قریبی ساتھیوں کا بھی دباؤ کہ محترمہ عائلہ ملک اوردوسرے ایسے نابغے جو تحریک کو نقصان پہنچا رہے ہیں کو موضوع نہ بناؤں، چونکہ میں تحریکِ انصاف کا ملکی سیاست میں ایک ہمہ گیر رول دیکھ رہا ہوں۔ علاوہ ازیں مجھے حد درجہ عزیزبھی ہے اور پھر PTI کو عزیز جہاں دیکھنے کا صدقِ دل سے متمنی بھی ہوں چنانچہ ضعف پہنچانے والوں کو نہیں چھوڑسکتا۔ 2011 ء کی اتنی بڑی جدوجہد 2013ء میں اس حال تک کیونکر اور کیسے پہنچی اس کا تجزیہ میرا ہمیشہ موضوع رہے گا تاکہ نئے نقصان سے بچا جا سکے ۔ زہے نصیب بری شہر ت اوربدنام زمانہ لوگ اپنی کئی نئی وارداتوں کو PTI کا نیامسلک بنا چکے ہیں جس میں ایسے جانثار جنہوں نے تحریک ِ انصاف کو 17 سال اپنی کوکھ میں رکھا کی کردار کشی بھی شامل ہے۔ وائے ناکامی !بدنام زمانہ بری شہرت کے حامل افراد کی تحریک ِ انصاف کے اندر امیج بلڈنگ کی مارکیٹنگ زوروشور سے جاری ہے ۔ میں نے فقط اتنا سوال کیا تھا کہ میانوالی میں عمران صاحب کے حلقے کیلئے2 ہفتے میں بینکوں کے ذریعے تقریباًپونے دو کروڑ روپے منتقل ہوئے اس کا حساب چاہیے ۔ الزام نہیں لگایا کہ رقم ”لوٹ سیل“ کا حصہ بن گئی صرف حساب مانگا ہے۔ مزیدکارکنان سوالی ہیں کہ پی پی 43 میں تحریک انصاف کے MPA کی شکست کا باعث بننے والوں کے خلاف کیا تادیبی کاروائی ہوئی؟
مجھے ڈر ہے کہ آنے والے ضمنی انتخابات میں ذاتی پسند پر مبنی ”شخصی فیصلے“ تحریک انصاف کے لاڑکانہ کا مکو ہمیشہ کے لیے ہی نہ ٹھپ دیں ۔ اگر میانوالی میں ”تبدیلی کے نعرے“ کومیری وجہ سے ضعف پہنچ رہا ہے تو پھر یقینا حفیظ اللہ کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے اور بفرض محال تبدیلی کا انجام محترمہ عائلہ ملک اور جناب امجد خان ہیں تو بہرحال پھر بھی کچھ کرنا ہی ہو گا۔ نوجوان ابابیلوں کی آنکھوں کے شرارے”نیا پاکستان“ کیلئے تھے۔ باقی رہا شیر افگن کا معاملہ تو یقیناوہ ایک عظیم آدمی تھا۔ اپنے نظریات، مفادات اور عمران دشمنی میں پوری زندگی یکسوئی کے ساتھ سینہ سپر رہا۔کوئی بھی ان کے اس پہلو سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ۔باقی میں ٹھہرا میانوالی کاگنوار(لاہور کے لوگ”غیرت مند“ کو گنوار جانتے ہیں) میری غیرت کا تقاضا ہے کہ اپنے ”پیارے کزن “ کی تذلیل اور گھناؤنے الزامات لگانے والوں کو کبھی معاف نہ کروں۔ یہ خان صاحب کی ہی ہمت ہے کہ اتنی گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہ ہوئے۔میں ڈاکٹر شیر آفگن کے کردار کی حوصلہ افزائی کرنے سے رہا۔ باقی فرمانِ باری تعالیٰ ” میں اس وقت تک کبھی ذی نفس کو موت نہیں دیتا جب تک اندر اور باہر آشکار نہ کر دوں“۔ تھوڑا انتظار،تھوڑاانتظار
تازہ ترین