• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی جانب سے شامی باغیوں کو فوجی سامان کی فراہمی کے اعلان کے بعد باغیوں کے حامی ممالک ”فرینڈز آف سیریا“ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس گزشتہ دنوں منعقد ہوا جس میں امریکہ سمیت برطانیہ، فرانس، جرمنی، مصر، ترکی و دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں شامی باغیوں کو فوجی سازو سامان اور آلات فراہم کرنے اور انہیں مسلح کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے موقع پر امریکہ اور ایک خلیجی ملک نے موقف اختیار کیا کہ شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا مقصد شام میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا اور امن قائم کرنا ہے۔ واضح ہو کہ امریکہ کی جانب سے شامی باغیوں کو براہ راست عسکری امداد کی فراہمی کیلئے ”فرینڈز آف سیریا“ گروپ کے ممالک کا یہ پہلا اجلاس تھا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر اوباما نے گزشتہ دنوں شامی حکومت کی جانب سے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات کے بعد شامی حکومت کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ شامی حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کو استعمال کر کے ”ریڈ لائن“ عبور کی ہے جس کے نتیجے میں امریکہ نے بشارالاسد حکومت کے مخالفین کو جدید اسلحہ فراہم کرنے اور شام کی اردن سے ملحقہ سرحدی علاقے کو ”نو فلائی زون“ قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ شام سے ملحقہ اردن کی سرحد پر سیکڑوں امریکی فوجی پیٹریاٹ میزائل کے ساتھ تعینات ہیں۔ برطانیہ اور فرانس نے بھی امریکی موقف کی تائید میں یہ موقف اختیار کیا کہ اُن کے پاس شامی حکومت کی جانب سے کیمیاوی ہتھیاروں کے چھوٹے پیمانے پر استعمال کے شواہد موجود ہیں جس کے نتیجے میں انہوں نے باغیوں کو مسلح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح ہو کہ شام میں گزشتہ دو سال سے جاری کشیدگی میں اب تک 90 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ شامی افواج نے باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہوں۔ روسی صدر نے ایک بار پھر مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ شامی باغیوں کو ہتھیار نہ دیئے جائیں، اگر صدر بشار الاسد کی حکومت گرتی ہے تو اس سے سیاسی خلا پیدا ہوگا اور سیاسی جگہ دہشت گرد لے لیں گے۔ دوسری طرف شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت بیرونی قوتوں کی حمایت رکھنے والے دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے۔ انہوں نے باغیوں کیخلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ نے کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں من گھڑت کہانیوں کو شام پر حملے کا جواز بنانے کی کوشش کی ہے۔بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے تو اس بات کا تعین کس طرح ہوگا کہ وہ ہتھیار شام کی سرکاری فوج نے استعمال کئے یا باغیوں کی طرف سے استعمال ہوئے یا پھر کسی عالمی طاقت کی سازش کا حصہ ہو کیونکہ بشار الاسد کی حکومت اتنی بے وقوف نہیں کہ وہ صدام حسین کے انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی حماقت کرے۔ واضح ہو کہ عراق پر امریکی حملے کی راہ ہموار کرنے کیلئے سابق امریکی صدر جارج بش نے بھی عراقی صدر صدام حسین پر کردوں کیخلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کرکے عراق پر حملے کی منظوری دی تھی۔
امریکہ گزشتہ کئی سالوں سے شام میں براہ راست مداخلت کی کوششوں میں سرگرم ہے اور اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں حکومتی فورسز جنہیں حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے کو شامی باغیوں کے خلاف کارروائی میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور کچھ علاقے جو باغیوں کے قبضے میں تھے ان پر دوبارہ کنٹرول حاصل ہوا ہے جس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ منصوبہ ہے کہ شامی باغیوں کو براہ راست چھوٹے ٹینکس، بکتر بند، طیارہ اور ٹینک شکن میزائلوں سے بھی لیس کیا جائے۔ ان ممالک کی یہ بھی کوشش ہے کہ کسی طرح شام پر ”نو فلائی زون“ مسلط کیا جائے کیونکہ یہ حربے اس سے پہلے عراق اور لیبیا میں کامیاب رہے ہیں۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بہت جلد باغی شام کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن ان حالات میں کیا روس اور چین دور کھڑے تماشا دیکھتے رہیں گے یا وہ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ایران جو بشار الاسد حکومت کا قریبی اتحادی ہے وہ بھی ان حالات میں خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا اور ایسا لگتا ہے کہ اگر شام کے تنازع نے شدت اختیار کی تو کئی ممالک اس کی لپیٹ میں آجائیں گے جو عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے اور اس تنازع کی شدت پاکستان میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ صدر اوباما کا شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ اور فرینڈز آف سیریا ممالک کے اس پر اتفاق کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور شام میں بھی عراق اور لیبیا کی تاریخ دہرانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ہر دور میں کسی نہ کسی اسلامی ملک پر قبضے کیلئے سازشوں کے جال بُنتے رہے ہیں جس کی زندہ مثالیں عراق، افغانستان اور لیبیا جیسے اسلامی ممالک ہیں۔ اب جبکہ امریکہ نے افغانستان سے 2014ء میں اپنی افواج نکالنے کا اعلان کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کا اگلا ہدف ایک اور اسلامی ملک شام ہوگا جس کے بعد ایران کی بھی باری آسکتی ہے۔ امریکہ اُس وقت اپنی ساکھ کھوچکا تھا جب وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگاکر عراق پر حملہ آور ہوا تھا جس کے بعد میں کوئی ثبوت نہیں ملے۔ توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ عراق جیسی غلطی شام میں نہیں دہرائے گا۔ موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال میں اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات بھلاکر اسلامی ممالک کے خلاف عالمی طاقتوں کی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور شام کے تنازع کے حل کیلئے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے تاکہ شام کے مسئلے کو طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو شام کے بعد ایک اور اسلامی ملک، امریکہ اور مغربی ممالک کی جارحیت کا شکار ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین