• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راہداری کا لفظ تخیل کے جھروکے سے نظر آنے والے اس رستے کی یاد دلاتا ہے جو ہم سب کے خوابوں میں بسا ہوا ہے، جس پر ہم روز سفر کرتے ہیں، جس کے ارد گرد خوشی، محبت اور امن کی خوشبوئیں بکھیرتے تروتازہ پھول انسانوں کو رویوں میں نرمی اور دوستی کا سندیسہ دیتے ہیں۔ اس راہداری پر کانٹے نہیں کیونکہ ہمارے احساسات میں کانٹوں اور نفرت کی گنجائش نہیں۔ ہمارا دل سبزے، پھولوں اور شفاف ہواؤں کا تمنائی ہے۔ ایک ایسی فضا جس میں وہ کھل کر سانس لے سکے مطلب کھل کر کھلکھلا سکے۔ جینا روزمرہ مشاغل سے مختلف عمل ہے جو دل اور روح کی امنگوں اور پاکیزہ خواہشوں سے جڑا ہوا ہے۔ راہداری سفر کی علامت ہے اور سفر زندگی ہے، ہر قسم کی برکت سفر کی حرکت سے جڑی ہوئی ہے۔ راہداری زندگی کے مقصد کو مکمل کرنے والا نقشہ ہے۔ یہ خواب کی مانند ہے جس پر ہر انسان چلنے کا تمنائی ہے کیونکہ یہ اس کی روح اور دل کی آواز سنتی ہے،اسے خوشیوں اور محبتوں کے جزیروں کی خبریں دیتی ہے۔اب بھی ہمارے درمیان بے شمار لوگ موجود ہیں جن کا وجود تو کسی ایک ملک کی سرحد کے اندر ہے مگر احساس بھٹکتا رہتا ہے۔ بچپن کی گلیاں آواز دیتی ہیں تو تخیل کی اڑان اس ماحول میں لے جاتی ہے جہاں کچے پکے وسیع صحن، ہم جماعتوں کی شرارتیں، زمین کی سوندھی خوشبو میں گھلا وجدانی رنگ، ماں کی لوری کا احساس دلاتی فضائیں انسان کو اپنے حصار میں لے لیتی ہیں تو زندگی مہکنے لگتی ہے لیکن ایک کسک کا احساس بھی ہمراہ رہتا ہے۔ معالج اگر ادبی ذوق کا حامل ہو تو وہ صرف جسم سے متعلقہ امراض کا سدباب نہیں کرتا بلکہ روحوں کی بخیہ گری کرتا ہے،ملکوں اور دلوں کے درمیان رابطے کا پل بھی بنتا ہے۔ ڈاکٹر آصف قدیر بھی ایک ایسا کردار ہے جس کا وجود محبت، آرزو اور جستجو کی تجسیم ہے۔ اس کی سوچ آزاد پنچھی کی طرح اس کی یادوں سےجڑے علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کا احساس ملکوں نہیں بلکہ براعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔کرتار پور راہداری نے 1947ء سے بچھڑی ہوئی آنکھوں کو اُمید کا رستہ دکھایا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان موجود راہداری تب تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک دانشور، ادیب اور سوچنے والے اس پر لفظوں کے گل نہیں کھلاتے، محبت کاشت نہیں کرتے۔ ’’سانجھاں آر پار دیاں‘‘ایک یادداشت ہے جو دونوں ملکوں کے ادیبوں کی دستخط شدہ ہے۔ اس کاوش کے ذریعے اس نے سانجھی قدروں کی بات کی ہے، ایسی فصل کاشت کی ہے جو نئی اُمیدوں کو جنم دے گی جس کی دھن پر فضا امن کا نغمہ گنگنائے گی۔ دنیا کو خیر کی طرف راغب کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی، اچھی ہمسائیگی کا مفہوم سمجھائے گی اور ملکر زندگی کو خوبصورت بنانے کی کوشش اُبھارے گی۔ اس کاوش نے پنجابی زبان کا دامن موتیوں سے بھر دیا ہے۔ قدیم اور جدید شاعروں کے انتخاب میں دونوں طرف کے پنجاب کے شاعروں کا کلام اور تعارف شاہ مکھی اور گرمکھی میں موجود ہے۔ اس تین کلو وزنی کتاب کو اٹھانے کے لئے انسان کو اتنی طاقت کی ضرورت ہے جتنی حوصلے کو مستحکم کر کے معاشرے میں خیر کی فضا ہموار کرنے کےلئے چاہئے۔ عظیم صوفیاء کی تصاویر کے علاوہ اس کی دلکش ترتیب و تدوین دیکھ کر جس خوشی کا احساس میرے دل پر اترا اُس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ سچی بات ہے کہ اس کو دیکھ کر میرے دل نے بہت شدت سے دعا کی ہے کہ کرتار پور راہداری میں ادبی راہداری کی جھلک نظر آئے۔ ہماری حکومت نے اپنے حصے کا کام کر دیا اب دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس پریم کہانی کو آگے بڑھائیں اور حقیقی معنوں میں محبت کی راہداری بنائیں۔ ہماری دوستی کی بنیادوں میں ہمارا کلچر، ہماری زبان، ہماری ثقافت رچی بسی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں جب ہندوستان میں کووڈ کی وبا حد سے باہر ہوئی تو ہمارے یہاں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر وہاں کے لوگوں کےلئے دعائیں کی گئیں، اس سے زیادہ اچھی دوستی کی مثال کیا ہو گی؟ صرف آغاز کی ضرورت ہے، اس راہداری کو نیک نیتی سے چھونے کی ضرورت ہے پھر تاثیر خود بخود دلوں کو مائل کرتی جائے گی اور یقیناً وہ ادبی راہداری ہی ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین