• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس نے پہلی بار اُسے پہاڑوں میں گھرے چشمے کے کنارے کھڑا دیکھا تھااور اپنی نظریں اُس سے ہٹا ہی نہیں سکا تھا۔کہتے ہیں ’’عورت اپنی جانب اُٹھنے والی ہر نظر کا اندازہ لگالیتی ہے، اسے محسوس کر لیتی ہے ۔‘‘ اُس نے بھی وہ نظریںمحسوس کرلی تھیں اور دوپٹے سے منہ ڈھانپ کر چشمے سے پانی بھرنے لگی تھی۔یہ دیکھ کراُسےخود پر ندامت ہوئی،لیکن نہ جانے کیوں وہ اِک بے ساختگی کے عالم میں اُسے دیکھے ہی جا رہا تھا۔ ’’کیا مَیں یہاں سے پانی پی سکتا ہوں؟‘‘ وہ اُس کے قریب گیا اور پوچھا۔

’’یہاں سے پورا گائوں پانی پیتا ہے ، یہ میری ملکیت نہیں،جو آپ کو میری اجازت کی ضرورت پڑے۔‘‘وہ گھڑے میں پانی بھرتے ہوئی بولی۔’’کیا آپ اسی گائوں میں رہتی ہیں؟میرا مطلب ہے آپ دیہاتی لگتی تونہیں ہیں‘‘وہ خاموش رہی، کوئی جواب نہ دیا۔وہ بہت دیر تک اس کے جواب کا منتظر رہا ،دوسری طرف مکمل خاموشی تھی ۔اُسے سمجھ نہیں آیا کہ اب کیا بات کرے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد دوبارہ بولا’’کیا یہاں کوئی اچھا ہوٹل ہے ،جہاں ایک رات کے لیے ٹھہرا جا سکے ؟‘‘پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔نہ جانے کیوں اس کادل چاہ رہا تھاکہ وہ اس سے باتیں کرے، اس کی طرف دیکھے۔

پتا نہیں ایسا کیا تھا اُس لڑکی میں،کیسا سحر تھا اُس کی آنکھوں میں۔اُسے یاد بھی نہیں تھا کہ اب تک کتنی لڑکیاں اُس کی زندگی میں آئیں اور چلی گئیں،لیکن ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے اُسے اتنی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی ہو۔وہ پانی بھرنے کے بعد جانے کے لیے اُٹھی اور اُس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی’’کسی لڑکی سے بات کرنے کے یہ حربے اب بہت پرانے ہو چُکے ہیں،یہ حربے کہیں اور جا کر آزمائو ،ڈھونڈنے والوں کو تو خدا بھی مل جاتا ہے، تو ہوٹل کیا چیز ہے۔‘‘ 

اس سحر انگیز آنکھوں والی لڑکی کی باتیںسُن کر شرمندگی کے مارے اُس کے ماتھے سے پسینا بہنے لگا ۔اتنا لاجواب تو اُسے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا ۔وہ کچھ نہ کہہ سکا ،وہ اُسے روکنا ،اس سے بات کرنا چاہتا تھا، لیکن، چُپ چاپ اُسے جاتا دیکھتا رہا۔اسے یاد آیا کہ بچپن میں اس کےچچا کی فیملی جب ان کے گھر آتی تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی،وہ ہر سال چھٹیوں میں ان کے گھر آتے تھے اور جس دن اُنہیں جانا ہوتاتووہ بے حد اُداس ہوجاتا، اُس کا دل چاہتا کہ چچا کی فیملی کو روک لے۔ آج برسوں بعد اس نے کسی کے لیے دوبارہ وہی شدّت محسوس کی تھی، وہ اسی شدّت سے اس لڑکی کو بھی روکنا چاہتا تھا، لیکن روک نہ سکا۔

شہر کی زندگی لاکھ بُری سہی ، مگر اس کی ایک خاصیّت ضرور ہے کہ یہ دیگر جذبوں کی طرح دُکھ ،غم اور یادیں بھی جلد بھلا دیتی ہے۔لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف تھا۔ اسے گائوں سے لَوٹے دو مہینے ہونے کو آئے تھے، لیکن اس لڑکی کا خیال، چہرہ، یاد یںاُس کے دل و دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھیں۔ اُس کی آنکھیں ہر وقت اس کی نظروں کے سامنے رہتیں،دل بھی کتنی عجیب چیز ہے کہ ہوتاتو آپ کا ہے، لیکن دھڑکتا کسی اور کےلیے ہے ۔کہنے کو توآپ کے جسم کے ساتھ پیوست ہوتا ہے، لیکن لمحے بھر میں اُس پر قبضہ کسی اور کا ہو جاتا ہے۔ 

اُس نے بہت سوچا ،بہت غور و خوض کیا کہ ایسا کیا تھا اس لڑکی میں ،جو اُسے باقی تمام لڑکیوں سے ممتاز کرتا تھا، مگر کچھ سجھائی نہ دیا، تو اگلے ہی ماہ پھر اُسی گاؤںپہنچ گیا، جہاں اُس نے اُس لڑکی کو دیکھا تھا۔وہ اُسی چشمے کے کنارے پہنچااور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا ۔وہ وہاں موجود تو نہیں تھی،لیکن چشمے کے ارد گرد کی ٹھنڈک اور وہاں کاسکون اس کی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ شام ہونے کو تھی ،وہ اب واپسی کا سوچ رہا تھا کہ وہی مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی’’بہت ڈھیٹ لگتے ہو ،مَیں نے کہا تھا ناں کہ یہ حربے کہیں اور جا کر آزمائو ‘‘’’کیا اس گائوں کے لوگ پیار، محبّت کو بھی ایک حربہ ہی سمجھتے ہیں؟‘‘اُس نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔’’محبّت …؟ تم غلط دروازے پر دستک دینے کی کوشش کر رہے ہو ،بہتر یہی ہے کہ اُس دروازے پر دستک دو ،جہاں سے تمہیںجواب کی توقع ہو، ورنہ واپس لوٹ جائو ‘‘اس نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔ ’’پہلی بار تو صحیح دروازے پر دستک دی ہے ، اب یہ تو دستک سننے والے پر ہے کہ وہ دروازہ کھولتا ہے یا واپس لوٹا دیتا ہے ‘‘اُس نے بھی اُسی انداز میں کہاتو بڑی بڑی آنکھوں والی وہ پَری بھی مُسکرادی ۔

اب اُس گائوں میں اُس کا آنا جانا تواتر سے ہونے لگاتھا۔وہ مہینے میں دو بار اُسی چشمے کے کنارے پہنچ کر اُس کامنتظر رہتا اوراُسے دیکھتے ہی جیسے اُس کے چہرے پر بہار آ جاتی ۔وقت گزرتاجا رہاتھا کہ اسے تو گزرنا ہی ہے اورانسان چاہےلاکھ کوشش کرلے، وہ کسی کے لیے نہیں رُکتا۔برسات کا موسم شروع ہو چُکا تھا۔ آج وہ سوچ کر آیا تھا کہ اُسے بتا دے گا کہ اب زندگی بھر کےلیے ایک ہونے کا وقت آ گیا ہے ، اسی لیے آج وہ بہت خوش تھا، لیکن خلافِ معمول وہ بہت خاموش تھی ۔’’کیا ہوا ؟ کوئی مسئلہ ہے تو بتائو؟‘‘ 

اس نے پوچھا ’’ہمارا ساتھ یہیں تک کا تھا ۔آج کے بعد مَیں ملنے نہیں آ سکوں گی۔‘‘ اُسے لگا جیسے کسی نے اُسے پہاڑ سےنیچے گرا دیا ہو۔’’یہ کیا کہہ رہی ہو؟ آخرکیوں؟ اب تو ہمیں ہمیشہ ساتھ رہنا ہے،اپنی ایک دنیا بسانی ہے ، مَیںیہی تو بتانے آیا تھا۔‘‘ بارش شروع ہو چُکی تھی ،بادلوں کی گھن گرج میں اسے جیسے دُور سے اس کی آواز آتی سُنائی دی۔’’ آگ اور پانی کا ملاپ کبھی نہیں ہو سکتا کہ جہاں آگ ہو گی، پانی اُسے ختم کر دے گا اور جہاں پانی ہو گا ، وہاں چنگاری بھڑک نہیں سکے گی ،اسی لیے واپس لوٹ جائو۔‘‘

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی ’’اِس گائوں میں جو آگ برسوں پہلے لگائی گئی تھی، اُس کی چنگاریوں سے سیکڑوں گھر جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔اُسی راکھ کو یہاں کی ہوا پورے گائوں میں ساتھ لیے پھرتی ہے۔رسم و رواج کے بوجھ نے یہاں کے ہر باسی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، لیکن جب جہالت کا بوجھ بڑھ جائے تو دل و دماغ بھی اس بوجھ تلے دَب کر جُھک جاتے ہیں ،یہاں ایک کے جرم کی سزا دوسرے بھگتتے ہیں۔کل میری شادی ہے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ ،جو بِنا سہارے کھڑا بھی نہیں ہو سکتا ۔میرا نکاح اس بوڑھے کے ساتھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ اس مقتول کا بھائی ہے، جسے میرے بھائی نے قتل کیا تھااور یہاں کے رواج کے مطابق بھائی کے جرم کی سزا بہن بھگتے گی۔

صدیوں سے یہاں یہی ہوتا چلا آرہا ہے، یہاں کے مکین ایک دوسرے کےلیے جان تو دے دیں گے ،لیکن رسم و رواج میں پھنسے ہوؤں کی جان بخشی نہیں کریں گے۔اس گائوں کے اوپر ہر وقت گِدھ منڈلاتے ہیں ،کیوں کہ یہاں’’گِدھوں‘‘ کوآئے روز رسم ورواج برقرار رکھنے کےلیےکوئی نہ کوئی زندہ لاش مل جاتی ہے۔‘‘یہ کہہ کراُس نے اُسے دیکھا۔آنکھوں کا پانی، بارش کے پانی میں کہیں گُم سا ہو گیا تھا،رونے سے اس کے چہرے کی لالی مزید بڑھ گئی ۔کافی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولا’’جو ہوا ،وہ ماضی تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔مَیں تمہیں اس جہنم میں جلنے نہیں دوں گا ۔

ہم ایک نئی دنیا بسائیں گے،بالکل اس چشمے جیسی ،پُر سکون اور راحت بخش۔‘‘ ’’نہیں!تم اس آگ سے دُور رہو ۔اس راکھ زدہ ہوا کے اثر سے کہیں دُور چلے جائو، کیوں کہ اس آگ کی تپش صرف تمہیں ہی نہیں ، میرے دل اور روح کو بھی جلا کر راکھ کر دے گی۔ ‘‘وہ اُس کی منّت کرتے ہوئی بولی۔ ’’مَیں ایسا کچھ ہونے نہیں دوں گااور تمہیں بھی یہاں سے لے جائوں گا …‘‘ ’’بس، اب اس سے آگے کچھ مت کہنا ،یہاں سے چلے جائو اور پھر کبھی اس گائوں کا رُخ مت کرنا، کبھی اس گھٹن زدہ ماحول میں قدم نہیں رکھنا۔‘‘ وہ جانے کےلیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر کچھ دُور جا کرمُڑ کر اُسے دیکھا ۔اُسے لگا ،شاید وہ کچھ کہنا چاہتی ہے، لیکن اس کے لب جیسےسِل سےگئے تھے۔وہ دُور تک اُسے جاتا دیکھتا رہا، آوازیں دیتا، روکتا رہا ،اپنی محبّت کی سچائی کا یقین دلاتا رہا، لیکن اب اُسے نہ رُکنا تھا، نہ واپس آنا تھا۔

جیپ اونچی نیچی سڑک پر دَوڑے جا رہی تھی ،رات بھر جاگنے کے بعد صبح ہی اس کی آنکھ لگی تھی اور اب وہ واپس جا رہا تھا۔ڈرائیور نے خلافِ معمول اُسے خاموش دیکھ کر پوچھا، ’’صاحب !خیریت تو ہے؟‘‘اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ،جیسے وہ کسی ڈراؤنے خواب سے بیدار ہوا ہو۔’’ ہاں! مَیں ٹھیک ہوں‘‘اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں ۔ اچانک گاڑی رُکی تو اُس نے آنکھیں کھولیں ، دریا کے ساتھ بنے لکڑی کے پُل کے پاس لوگوں کا رَش لگا تھا۔کئی گاڑیاں وہاں کھڑی تھیں، ڈرائیور نیچے اُتر گیا ۔اُس نے پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں ،پھر وہی تصویر ،وہی آنکھیں اس کےسامنے آگئیں،بارش میں بھیگی آنکھیں اور ان سے بہتے موتی۔ڈرائیور واپس آیا اور گاڑی چل پڑی۔’’کیا ہوا تھا …؟‘‘

کافی دیر بعد اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔ ’’صاحب کیا بتائوں،اس گائوں کی خوشیوں کو تو جیسے نظر ہی لگ گئی ہے ، لوگ بتا رہے تھے کہ گائوں میں شادی تھی،بارات ڈولی لے کرجا رہی تھی۔مگر ڈولی لکڑی کے بنے پُل سے گزرنے لگی، تو نہ جانے کیا ہوا ،دلہن اُس میں سے دریا میں جا گِری ۔ اس دریا میں ڈوبنے والا آج تک بچ کر واپس نہیں آیا، کچھ لوگ کہہ رہے تھے ڈولی کا توازن بگڑ گیا تھا۔ایک بوڑھا کہہ رہا تھا کہ دلہن نے خود ڈولی سے چھلانگ لگائی ،کیوں کہ اس کی شادی زبر دستی کسی بڈھے سے کر دی گئی تھی۔‘‘ ’’کیا…یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘

اُس نے اتنی زور سے چیخ ماری کہ ڈرائیور نے خوف زدہ ہو کر بریک لگا دی۔‘‘ وہ گاڑی سے اُتر گیا، اُس کی آنکھوں کے سامنےاندھیرا چھا گیاتھا۔وہ دیوانوں کی طرح بلک رہا تھا۔ اور دریا پورے زور وشور سے بہہ رہا تھا۔اُس نے سڑک کنارے آ کر دریا کی جانب دیکھا،تو وہ وہیں کھڑی تھی،وہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا نیچے اُترا تو ڈرائیوربھی اُس کے پیچھے بھاگاکہ نیچے کھائی تھی۔دریا کنارے پہنچ کر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ،اُسے آوازیں دینے لگا…اُس کی سانس پُھولی ہوئی تھی، لیکن پرچھائیں کب حقیقت بنی ہے،جو اب بنتی؟وہ نہ جانے کتنی دیر دریا کنارے بیٹھا اُس کی موجیں تکتارہا ،لیکن وہ نہ آئی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی ۔

جیپ تیزی سے واپسی کاسفرطے کر رہی تھی ۔ جب وہ تھوڑا نارمل ہوا توڈرائیورنےپوچھا،’’صاحب !چائے پانی کےلیے کہیں گاڑی روکوں؟‘‘ اُس نے آنکھیں کھولے بغیر جواب دیا، ’’نہیں !مجھے جلد از جلداس گھٹن زدہ ماحول سے کہیں دُور لے چلواورگاڑی تیز چلائو ،اس سے پہلے کہ میری سانسیں رُک جائیں۔ ‘‘ ڈرائیور نے حیرت سے اُسے دیکھا اور پاؤں ایکسلیریٹر پر رکھ دیا۔

تازہ ترین