• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گھر میں داخل ہوتے ہی وہاں صحن میں موجود مرغیوں نے گھر کے مکینوں کو کسی مہمان کے آنے کی اطلاع اپنی منفرد صدا ئوں کی شکل میں دینا شروع کردی ،صحن میں چاروں طرف ہریالی اور خوبصورت باغیچوں نے جاپانی طرز پر بنے پرانے اسٹائل کے نئے مکان کی خوبصورتی میں کافی اضافہ کردیا تھا ، بادلوں سے نکلتا اور چھپتا سورج موسم کو انتہائی خوبصورت بنارہا تھا ،ایک طرف پنجرے میں بند خوبصورت آسٹریلین طوطے بھی فضا میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے ، مجھے اس وقت کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہورہا تھا کہ میں دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ملک جاپان میں کھڑا ہوں بلکہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں پاکستان کے کسی شہر یا خوبصورت گائوں یا فارم ہائوس میں موجود ہوں میں اس وقت ٹوکیو سے کچھ فاصلے پر اپنے پاکستانی دوست سے ملاقات کے لئے پہنچا تھا ، جہاں میرے دوست نے انتہائی وسیع و عریض رقبے پر اپنا گھر تعمیر کیا تھا ، اس علاقے میں آنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا ، میں جاپان میں اپنے دوست کے پاکستانی طرز رہائش سے کافی متاثر ہوا ، یہاں کہیں سے ایسا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ہم اپنے مادر وطن سے ہزاروں کلومیٹر دور پردیس میں ہیں ، ڈرائنگ میں بھی پاکستان سے منگوایاگیا چنیوٹی فرنیچر انتہائی سلیقے سے رکھا تھا ،جبکہ سامنے ٹی وی پر پاکستانی چینل پرمعروف سیاسی ٹاک شو کے اینکر پرسن پاکستان کے سیاسی حالات پر انتہائی منفی تجزیہ پیش کرکے جاپان میں بھی پاکستانیوں کو ڈپریشن کا مرض لاحق کرنے کے لئے موجود تھے ، ابھی مجھے آئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک خاتون جو یقیناًمیرے دوست کی اہلیہ تھیں کمرے میں داخل ہوئیں ، جینز کے اوپر پاکستانی کرتا اور سلیقے سے ڈالی گئی شال میں یہ خاتون انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ لگ رہی تھیں ،انھوں نے باادب طریقے سے اردو زبان میں سلام کیا جبکہ انگریزی میں بھی تعارفی کلمات ادا کئے جس کے بعد وہ چائے اور دیگر لوازمات رکھ کر کمرے سے باہر چلی گئیں ،جبکہ ان کے ساتھ کمرے میں داخل ہونے والے تین بچے ڈرائنگ روم میں ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے ،کیونکہ جاپانی شہری بہت کم ہی انگریزی جانتے ہیں جبکہ میرے دوست کی اہلیہ کافی روانی سے انگریزی میں بات کررہی تھیں لہذا میں نے دوست سے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس کی اہلیہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے اس کے والدین امریکہ میں مقیم ہیں جہاں وہ بڑے کاروباری ادارے کے سربراہ ہیں ، میرے لئے یہ بات کافی حیران کن تھی کیونکہ جاپانی شہری امریکہ میں قیام اور کاروبار کو بہت پسند کرتے ہیں جبکہ ہمارے دوست کی اہلیہ کے پاس یہ دونوں چیزیں میسر تھیں پھر وہ کیوں ٹوکیو سے دور ایک دور دراز علاقے میں پاکستانی طرز پر زندگی گزار رہی ہیں ، یہی سوال میں نے جب اپنے دوست سے کیا تو اس نے بتایا کہ دس برس قبل اس کی اہلیہ امریکہ سے جاپان چھٹیاں گزارنے آئی تھیں ٹوکیو میں ہی اس کی اپنی اہلیہ سے ملاقات ہوئی ، ملاقات دوستی میں بدلی اور پھر دوستی محبت میں جس کے بعد دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا ، جس کے بعد میرا دوست اپنے ہونے والے ساس سسر سے ملاقات کے لئے امریکہ گیا جہاں لڑکی کے باپ نے پہلی ملاقات میں ہی اسے مسترد کردیا اوراپنی بیٹی کو بتادیا کہ اگر اس پاکستانی لڑکے سے شادی کرنی ہے تو اپنے والدین سے تعلق ختم کرنا پڑے گا یا پھر اس لڑکے سے تعلق ختم کردو ، لیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی جاپانی لڑکی میرے دوست کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہوگئی تھی وہ دین اسلام کا مطالعہ بھی کررہی تھی اسلئے اب وہ واپس پرانے راستے پر جانے کو تیار نہیں تھی ، اس نے اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو اس نے والدین کے گھرکو خیرباد کہہ کر میرے دوست سے شادی کرلی اور جاپان میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ، شرو ع میں اس نے بھی ملازمت کی لیکن یکے بعد دیگرے تین بیٹوں کی پیدائش کے بعد اس نے ملازمت چھوڑ کر گھر دار ی کا شعبہ سنبھال لیا، وہ اپنا سسرال بھی دیکھنا چاہتی تھی لہذا وہ اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئی جہاں اس نے نہ صرف اردو زبان سیکھی بلکہ دین اسلام کی بنیادی تعلیم بھی حاصل کی ، نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھا اور دین اسلام کے سکھائے گئے آداب زندگی بھی سیکھے ، اس نے کچھ ہی عرصے میں اپنے سسرال والوں کا دل جیت لیا اور اپنی ساس کی بہترین دوست بھی بن گئی ، اب وہ جاپانی ،انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو اور پنجابی زبان بھی بولنے لگی تھی ، میرا دوست نعیم اپنی اہلیہ کی قربانیوں کی کہانی مسکرا تے ہوئے سنا رہا تھا ، اس کی آنکھوں سے اطمینان اور سکون جھلک رہا تھا ، اس نے مزیدبتایاکہ اہلیہ کا اسلامی نام آمنہ رکھا گیا ہے ، اور وہ نہ صرف پنج وقتہ نمازی ہے بلکہ بچوں کو بھی دینی تعلیمات فراہم کرنے میں انتہائی مستعد ہے ، جبکہ اسلام پر اعتقاد اور یقین اس قدر ہے کہ اگر کبھی طبعیت بھی خراب ہوجائے تو یہی سوچتی ہے کہ شاید اس نے رات کو سونے سے قبل کلمہ نہیں پڑھا تھا ، کاروبار اور آمدنی میں اضافے کے لئے ہر ماہ کچھ رقم غریبوں کے لئےبھی ضرور نکالتی ہے ،لیکن وہ اکثر اپنے والدین کو یاد کرکے روتی اور دعا کرتی کہ اللہ ان کے دل نرم کردےاس نے اپنے بچوں کی تصاویر بھی والدین کو ای میل کیں ۔کچھ ہی عرصے بعد ایک دن دروازے پر دستک ہوئی ،دیکھا تو سامنے اس کے والد اور والدہ موجود تھے ، وہ بھی اپنی بیٹی کے بنا نہیں رہ سکے تھے ، میرا دوست اپنی اہلیہ کے ساتھ گزارے گئے دس سالوں کا احوال اتنے اچھے طریقے سے بیان کررہا تھا کہ میراسننے کا اشتیاق بڑھتا جارہا تھا ،میرے دوست کا کاروبار کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے ، لیکن آج تک اس کی اہلیہ نے اس سے اس کی آمدنی کے متعلق سوال نہیں کیا ، کبھی نہیں پوچھا کہ اس نے والدین کوکیا بھیجا ، پاکستان میں کتنی جائیداد ہے ،بھائی بہنوں کے ساتھ کیامعاشی تعاون کررہا ہے ، وہ اپنی زندگی میں مگن تھی اور بہت خوش تھی ، لیکن ۔۔ میرے دوست کے اس لیکن نے مجھے چونکا دیا ، کہ اتنی اچھی مثبت کہانی میں یہ لیکن کہاں سے آگیا ، میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تو وہ بولا کہ میری اہلیہ کو مسلمانوں سے ایک شکایت ہے ، کہ اتنے اچھے مذہب کے پیروکار اتنے اچھے کیوں نہیں ہیں ؟ میرے دوست کی جاپانی اہلیہ کے مطابق اگر ہر مسلمان اپنی حدود میں رہتے ہوئے اسلام پر اس کی روح کے مطابق عمل پیر اہونے کی کوشش کرے تو دنیا میں بھی کامیابی ہے اور آخرت میں بھی۔
تازہ ترین