• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس موضوع پر روشنی ڈالنے سے قبل چند ایک وضاحتیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پاکستان سے بڑی تعداد میں موصول ہونے والی ای میلز اور ہمارے روزنامہ جنگ کے محترم کالم نگار حسن نثار( جو میرے پسندیدہ ترین کالم نگار ہیں اور ان کے کالموں اور میرے مطابق پروگرام پر فخر محسوس کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ اردو زبان میں ان کی طرح بے باک لکھنے والے اور کالم نگار عطا فرمائے) صاحب کے اکیس جون کے کالم ” ترکی کیلئے دعا“ میں برسراقتدار جماعت کو مذہبی جماعت قرار دیا جا رہا ہے۔ میں اس بارے میں پہلے ہی قارئین کی ای میلز کے جواب میں اپنا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں اور ایک بار پھر عرض کردوں کہ موجودوہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔ ترکی کے آئین کی رو سے ترکی میں کسی بھی جماعت کو مذہب کے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے ترکی کی تمام دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) بھی ایک سیکولر پارٹی ہے۔ اس جماعت کو پاکستان کی طرز کی اسلامی اور مذہبی جماعتوں سے منسلک کر دینا یا ہم پلہ قرار دینا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ یہ جماعت پاکستان کی تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے زیادہ ماڈرن اور جدید خیالات کی حامل جماعت ہے۔ جس طرح ان جماعتوں کو مذہبی جماعتیں نہیں کہا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح اس جماعت کو بھی مذہبی جماعت نہیں کہا جاسکتاہے۔ جہاں تک ترکی کے نام نہاد سیکولر حلقوں اور دنیا کے چند ایک حلقوں کی جانب سے اس جماعت پر مذہبی اور انتہا پسند ہونے کا الزام لگایا جانا ہے تو اس کی وجہ نام نہاد سیکو لر حلقوں (اس حلقے سے میری مراد ہیڈ اسکارف پہن کر یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں طالبات کے دروازے تعلیم کیلئے بند کرنا اور صرف داڑھی رکھنے کی بنا پر ان کو سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھنا ہے۔ کیا امریکہ اور یورپی ممالک میں سیکولر حلقے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں؟) کے ہاتھوں سے اقتدار کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکل جانا ہے جس کا انہیں گہرا دکھ ہے۔
محترم حسن نثار صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ”آج مصطفی کمال کا یہی ترکی لرزاں و ترساں ہے، اسکے استحکام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، عوام کی ایک بڑی تعداد وزیراعظم ایردوان کو شخصی حکمرانی کا طعنہ دے رہی ہے۔ موجود ہ وزیراعظم تاریخ کا پہیہ ریورس کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔” یہ چند ایک جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محترم حسن نثار صاحب غیر ملکی تجزیہ نگاروں سے بڑے متاثر ہیں ورنہ وہ کسی بھی صورت CNNکی طرح وہ غلطی نہ کرتے جو انہوں نے وزیراعظم ایردوان کے ایک ملین ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل جلسے کو مخالفین کا جلسہ قرار دیتے ہوئے کیا ہے۔ وزیراعظم ایردوان کو ڈکٹیٹر صرف اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے جب انہیں عوام کی حمایت حاصل نہ رہے ۔ ترکی کو دیگر اسلامی ممالک پر یہ برتری حاصل ہے کہ یہ ملک جمہوری لحاظ سے اسلامی ممالک میں مضبوط ترین ملک ہے۔یہاں پر جمہوریت گزشتہ اسّی سال سے قائم ہے جوکہ بلاشبہ عظیم رہنما مصطفی کمال اتاترک ہی کی مرہون منت ہے۔ (راقم نے اس سے قبل ترکی، پاکستان اور سیکولرازم کے زیر عنوان چند ایک کالم لکھتے ہوئے اس موضوع پر کچھ حد تک روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جو کہ روزنامہ جنگ کے آرکائیو میں موجود ہیں اس لیے جگہ کی کمی کے باعث اس موضوع کو نہیں دہراؤں گا بلکہ روزنامہ جنگ کے ان کالموں پر ایک نگاہ ڈالی جا سکتی ہے) ترکی میں اتاترک سے گہری محبت کرنے کے بارے میں کسی پر ذرہ بھر بھی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ سب کے سب اتاترک سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں۔ پرابلم صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنے مفاد حاصل کیے جاتے ہیں جیسے ہمارے یہاں اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفاد کو حاصل کیا جاتا ہے۔ اتاترک کے بعد ملک میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت بلاشبہ ایردوان ہی ہیں۔ تمام تر حالات کے باوجود کرائے جانے والے حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم ایردوان کو اب بھی ملک میں 54 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اور چون فیصد عوام کی حمایت رکھنے والے رہنما کو ہم بھلا کیسے ڈکٹیٹر کہہ سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ نام نہاد سیکولر حلقوں اور غیر ملکی میڈیا کا کیا دھرا ہے۔ ویسے بھی حسن نثار صاحب نے میرا گزشتہ ہفتے کا کالم ”عوامی قوت اور ایردوان“ پڑھا ہوا ہوتا تو وہ ان کا نام غیر ملکی میڈیا سے حاصل کیے بغیر صحیح اردو تلفظ کے ساتھ ”اردگان لکھنے کے بجائے ایردوان“ لکھتے۔ اس وضاحت کے بعد اپنے اصلی موضوع کی جانب آتا ہوں۔
وزیراعظم رجب طیب جو ملک کی تاریخ میں مسلسل تین بار اور طویل ترین مدت تک مسندِ وزارتِ عظمیٰ پر براجمان رہنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اب ملک میں صدارتی نظام کو متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایردوان کی قیادت میں قائم ہونے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی اقتدار حاصل کرلیا جو کہ ترکی کی تاریخ میں اپنی طرز کا انوکھا واقعہ تھا اور پھر یہ پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد مزید سرعت سے ترقی کرنے لگی اور اس کے ووٹوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ اس وقت کہا جارہا تھا کہ یہ جماعت کٹر قسم کی مذہبی جماعت ہے اور اس کا مقصد ملک میں سیکولر نظام کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے شریعت نافذ کرنا ہے۔سیکولر حلقوں نے ایردوان کے استنبول بلدیہ کے مئیر ہونے کے دور میں ہر طرف یہ افواہیں پھیلانا شروع کردیں تھی کہ ایردوان استنبول میں بسوں کے نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے بسوں کو زنانہ اور مردانہ دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سیکولر نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایردوان کے خلاف جس شرعی نظام کو متعارف کرانے کا پروپگینڈا کیا جا رہا تھا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران کوئی ایسا قدم ہرگز نہ اٹھایا جس سے ان کے مخالفین کو ان پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع ملے بلکہ انہوں نے اپنے پہلے ہی دور اقتدار میں ایسا لبرل نظام اختیار کیا کہ وہ حلقے بھی جو ان کا نام سننا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے ملک میں متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کی وجہ سے وزیراعظم ایردوان کے گرویدہ ہوگئے۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار کی راہ میں فوج سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی ہے اور وزیراعظم ایردوان اس صورتحال کی نزاکت سے پوری طرح باخبر تھے۔ وزیراعظم ایردوان نہایت زیرک اور ذہین انسان ہیں انہوں نے اپنے پہلے دور میں فوج کی برتری کو بڑی خندہ پیشانی سے قبول کیے رکھا لیکن اس دوران انہوں نے عوام کے معیار زندگی کو بہتر کیا اور ملک میں نج کاری کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے ملک کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی اور ایک غریب ملک کے لیبل کو ہٹا کر صنعتی ممالک کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا۔ انہوں نے اس دوران پولیس اور ان کے سسٹم کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا اور پولیس کو نہ صرف فوج کے معیار پر لاکھڑا کیا بلکہ کئی ایک شعبوں میں پولیس کو فوج پر برتری حاصل ہوگئی۔ خاص طور پر خفیہ سروس کے معاملے میں حکومت اب فوج کی محتاج نہ رہی تھی بلکہ تمام خفیہ اطلاعات کا تبادلہ پولیس اور خفیہ سروس کے توسط سے انجام پایا جانے لگا۔عسکری اور عدلیہ کے شعبے میں متعارف کرائی جانیوالے اصلاحات سے ان حلقوں کی ہمدردیاں بھی ایردوان کو حاصل ہو گئیں جو عدلیہ اور فوج کی ناانصافیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہے تھے۔
موجودہ دور تک وزیراعظم ایردوان کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اس کی ایک وجہ ملک میں اپوزیشن جماعتوں کا رویہ ہے۔ اس وقت ترکی کی پارلیمینٹ میں آق پارٹی کو پچاس فیصد، ری پبلیکن پیپلز پارٹی کو 23 فیصد ، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو بارہ فیصد اور ڈیموکریٹک اند پیس پارٹی کو سات فیصد ووٹ حاصل ہیں۔ ایردوان نے اپنی مضبوط سیاسی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام متعارف کرانے کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا تاکہ ایسے امور جس کی منظوری حاصل کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وقت کا زیاں ہوتا ہے سے بچنے کیلئے صدارتی نظام کو متعارف کرانے کے پروگرام پر عملدرآمد کرنا شروع کردیا تھا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ایردوان جن کو ان مظاہروں کی وجہ سے دھچکا بھی لگا ہے اس دھچکے سے اپنے آپ کو کیسے بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس نظام کو متعارف کرانے کے لئے کیا اب بھی وہ عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
تازہ ترین