• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوئی ہوئی بستیوں میں کتے، جنگلوں میں گیدڑ، ان کی آوازیں،کائنات کی نیند توڑتی نہیں گہرا کرتی ہیں لیکن سوئی بستیاں، سوئے جنگل، سوئی صدیاں کسی وقت بھی جاگ سکتی ہیں۔انتظار حسین کی رمزیت آمیز” بستی“ ہو یاکراچی سا شہرِ خرابی، ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسانوں کے بیچ انصاف کا آغاز ہوجائے، انصاف قائم ہوجائے۔بہن کی حفاظت کرتے اس خوش جمال شاہ زیب کے قاتلوں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سنائی جانے والی سزائے موت کا فیصلہ ایسا ہی آغاز ہے۔آخر شب وہ چند لمحے بہن کی حفاظت کے حوالے سے،کمال احساس کے حوالے سے، کیا ہی فیصلہ کن تھے۔جس ماں نے کبھی اپنے رب سے یہ دعا کی تھی…میرے آنگن میں بھی کھِلا…اک گلاب…آج اپنی پھلواری کے سب سے خوش رنگ پھول سے یوں محوکلام ہوگی…میرے بیٹے تمہاری موت ایک بھائی کی تقدیر ہے۔جو بہنوں پر جان دیتے ہیں…وہ شہید کہلاتے ہیں…اور جہاں تک کسی بے گناہ کے قتل کو گناہ نہ سمجھنے، اس پر فخر کرنے، خوشی کا اظہار کرنے اور وکٹری کا نشان بنانے کا تعلق ہے میرا اللہ سورة النساء میں ایسے قاتلوں کو پانچ وعیدیں سناتا ہے۔
شاہ زیب قتل کی سفاکانہ تفصیلات سامنے آئیں تو جس کسی نے…اپنا پہلو ٹٹولاتو ایسا لگا…دل جہاں تھا وہاں…درد ہی درد ہے…یہ درد مشترک ہے۔جو اس قتل کوکوئی اور رنگ دینے کے درپے ہیں وہ دل تھام کرغور کریں کہ وہ زمین اور آسمان جس کے بیچ ہم سب سانس لے رہے ہیں، جس توازن پر قائم ہیں اس کا نام انصاف ہے۔ شہروں کی فلاح اور بستیوں کی سلامتی سے کسی اور چیز کااتنا گہرا تعلق نہیں جتنا لوگوں کے اس احساس کا کہ وہ یقینی اور فوری نظام انصاف پرانحصار کرسکتے ہیں۔ایک بار پھر عرض ہے کہ کسی کا لحاظ کئے بغیر انصاف ان سب کیلئے جن کی ساری زندگی ایک فریاد ہے۔ انصاف ان سب کے لئے جن کی زندگیاں شاہ زیب کی طرح زخموں کی داستان ہیں۔انصاف ان سب کے لئے جن کی ڈرون حملوں میں شہادت پورے ملک کیلئے باعث ندامت ہے۔انصاف ان سب کے لئے جو صحراؤں میں رہتے ہیں،دیہات میں رہتے ہیں،میلوں کچی زمین پر چل کر گھڑوں میں پانی بھر لاتے ہیں اور انصاف سب کیلئے۔
بجٹ سے متعلق کیا عرض کیا جائے اس دیگ کے ایک چاول سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں۔ بجٹ میں حاجیوں سے لے کر، پان چھالیہ تک،شیر خوار بچوں کے دودھ سے لیکر کاپی قلم کتاب تک شادی ہال، کلب، ریستورانوں سے لیکربے شمار چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جن کا استعمال معمولات زندگی میں ناگزیر ہے، وہ سب ٹیکسوں کی زد پرآکر عوام سے دور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ بجٹ تقریر میں وزیرخزانہ نے اعلان بھی کیاہے کہ”وزیراعظم ایک جامع توانائی پالیسی کا اعلان کریں گے تاکہ توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت میسر کی جاسکے “۔سرمایہ کاروں کے لئے یہ ایک اچھا پیغام ہے ۔مگر عوام کے لئے یہ پیغام ہے کہ بجلی کی قیمت میں چھ روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا ۔یوں لوڈشیڈنگ تو شاید کم ہوجائے لیکن اس سے جو مہنگائی بڑھے گی اس کاکیاعلاج۔ نجکاری کا عمل بجلی کی قیمتوں کو بڑھاتا ہے ۔نجکاری کے ذریعے توانائی کے شعبے کو مفلوج کرنے کے بعد آئی ایم ایف کا دوسرا ہدف معیشت پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنا ہے۔ 2011-12میں حکومت نے صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000ملین روپے اکٹھے کئے جو 2002-03کے حاصل ہونے والے محاصل سے بھی زیادہ ہے۔ 2012-13میں یہ ہدف 914,000ملین روپے رکھا گیا ہے۔ حکومت کے محاصل میں سیلز ٹیکس کا حصہ 9فیصد سے بڑھ کر43فیصد تک پہنچ چکا ہے مگرجہاں تک لٹیروں سے اربوں کھربوں وصول کرانے کی بات ہے تو بجٹ میں اس کاکوئی تذکرہ نہیں اس لئے بھول جائیں کہ یہ بجٹ عوام دوست ثابت ہوگا۔
اشتراکیت سے نجات کے بعد دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کی زد پر ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہے کہ وہ وسائل کو چند ہاتھوں میں مرتکز کردیتا ہے کیونکہ وہ کسی اخلاقی نظام کے تابع نہیں۔اگر کسی ملک کا کل سرمایہ 100روپے ہے تو دس سرمایہ داروں کے پاس 90روپے ہونگے جبکہ 90غریبوں کے ہاتھ میں صرف10روپے ہونگے۔اس نظام میں غریبوں کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ ۔۔۔دامن خالی ہاتھ بھی خالی دست طلب میں گرد طلب…جس نظام نے چین جیسے ملک میں غربت میں اضافہ کردیا ہے، اس نظام کو اپنا کر پاکستان میں غربت میں کمی کیسے ممکن ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کے بعد انسانی ضمیر ایک متبادل کی تلاش میں ہے وہ متبادل اسلام ہے۔
تازہ ترین