• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو سال قبل قومی بجٹ کے خسارے کی خستہ حالی پر میں نے ”قومی خسارے کا خسرہ“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔مزے کی بات کہ کالم وہیں کھڑا ہے مگر خسارہ دوگنا ہو گیا۔ غالباً پروفیسر انور مسعود کا یہ قطعہ انہی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
قسم ہے گذرتے ہوئے وقت کی
کہ انسان بیشک خسارے میں ہے
یہ ارشادِ باری مجھے یوں لگا
ہمارے بجٹ ہی کے بارے میں ہے
آج میں خسارے کی بجائے آپکی توجہ قومی خزانے کے بے دریغ استعمال کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ جناب رؤف کلاسرانے چند روز قبل ٹی وی کے ایک پروگرام میں دستاویزی ثبوت کی مدد سے چونکا دینے والے اعداد وشمار پیش کیے جن میں کروڑوں روپے ریوڑیوں کی طرح خاص الخاص احباب اور ان کے اہلِ خانہ میں علاج معالجے کے نام پر تقسیم کئے گئے۔ یہ رقم چونکہ صوابدیدی مدسے تھی اس لئے یوں محسوس ہوا کہ مسکین ریاست کے امیر بادشاہ نے یہ سارا عمل اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ذاتی جیب سے کیا ہو۔اپنے قائدین کی اس دیدہ دلیرانہ خدمت خلق اور قومی خزانے کے بے دریغ استعمال سے میرے ذہن میں چند ایک واقعات اُبھرے جن کا ذکر میں آپ سے کرنا چاہوں گا۔ 1998 ءء میں برطانیہ کے رائل کالج میں ایک تربیتی کورس کے دوران مجھے دیگر کالج کے ارکان کے ہمراہ یورپی ممالک کے تعلیمی دورے پر جانے کا موقع ملا۔ ایک شام ایتھنز میں برطانیہ کے سفیر کی عالیشان سرکاری رہائش گاہ کے وسیع سبزہ زار میں ایک عشائیے پہ مدعو تھے قبل از طعام گفتگو کے دوران ہمارے وفد کے ایک برطانوی رکن نے قونصل جنرل کے ساتھ گفتگو کے دوران یہ سوال کیا کہ برطانیہ اور یونان کی تجارت کا حجم کیا ہے؟ جواب میں وہ بولے کہ ” بس واجبی سا“ جس پر اس رکن نے حیرانگی کے ساتھ کہا کہ قبلہ پھر ہمارے سفیرِمحترم کی رہائش گاہ بھی واجبی سی ہی ہونی چائیے تھی تاکہ ہمارا ٹیکس میں دیا ہوا پیسہ ضائع نہ ہوتا ۔ میں اس قوم کی مثبت سوچ سے خاصا متاثر ہُوا۔ دوسرا قصّہ مجھے نیویارک کا یاد آیا جس میں ایک زیر تعمیر سڑک پر سے گذرتے ہوئے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر یہ عبارت رقم تھی ”SORRY FOR INCONVENIENCE, YOUR TAX AT WORK ''۔اس کے بر عکس ہمارے ہاں بورڈوں پر ٹھیکیدار اور ٹھیکے دینے والوں کے نام جلی حروف میں لکھے نظر آتے ہیں۔ اس نسبت سے پاکستان کی تمام سڑکیں، پل، ہوائی اڈے، ہسپتال اور نالے کھالے ہمارے قائدین کی ذاتی ملکیت کا منہ بولتا ثبوت نظر آتے ہیں اور اس میں رہنے اور ٹیکس کی ادائیگی کرنے والے سب ان کے کم عقل سپوت ہیں۔قارئین کرام! موجودہ حکومت کا صوابدیدی فنڈ کو ختم کرنے کا اعلان ایک احسن قدم ہے۔ اللہ کرے یہ سچ ثابت ہو اور ہم اس سمت میں استقامت کے ساتھ اپنے اسلاف کی روش کو اپنائے رکھیں کیونکہ ہم بھی کبھی اس شعبے میں خاصے خود کفیل تھے۔ آپ کو وہ قصّہ تو یاد ہو گا جب وزیراعظم چوہدری محمد علی نے لندن میں ہونے والے دولت مشترکہ کے اجلاس میں جانے سے پہلے اپنی کابینہ سے دو گذارشات کیں۔ پہلی یہ کہ ان کو مبلغ سات ہزار روپے اپنے علاج کے لئے بطور قرض دیا جائے دوسری یہ کہ ان کو اسٹینو کی جگہ اپنی زوجہ محترمہ کو لے جانے کی اجازت دی جائے ۔کابینہ نے حسبِ معمول ”فراخ دلی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنابِ وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا کہ آپ علاج بھی مفت کروائیں اور اسٹینو کے ساتھ ساتھ بیگم کو بھی مفت سیر کروائیں۔ مشورہ تو ماشاء اللہ چاشنی سے بھر پور تھا لیکن محترم وزیراعظم نے اس کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ یہاں مجھے علامہ اقبال کے جوابِ شکوہ کا ایک مصرعہ یاد آیا۔تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہواس ضمن میں آپ کے چودہ طبق روشن کرنے کے لئے ہظیمہ بخاری اور ڈاکٹر اکرام الحق کے پیش کردہ چند اعداد وشمارکافی ہیں۔ا۔ہمارے ملک کے 6 لاکھ افراد ہر سال بیرونی ممالک کے دوروں پر جاتے ہیں مگر ایک پائی بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ب۔تقریباًچھ لاکھ پاکستانی قومی اور بیرونی ممالک میں کھاتے تو رکھتے ہیں مگر نیشنل ٹیکس نمبرنہیں رکھتے۔ج۔56 ہزار سے زیادہ پاکستانی امیر ترین علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور 20 ہزار لوگ پرتعیش گاڑیاں رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔د۔66 ہزار سے زیادہ ا یسے انفرادی صارفین ہیں جو بھاری یوٹیلیٹی بلز تو دیتے ہیں مگر ٹیکس سے آنکھ بچا جاتے ہیں۔ھ۔تقریباً 30 لاکھ پاکستانیNTN تو رکھتے ہیں مگر ان میں صرف14 لاکھ آمدن کے گوشوارے جمع کرواتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ ٹیکس بھی دیتے ہوں۔
تازہ ترین