• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند سال سے پاکستان کو بین الاقوامی عدالتی محاذ پر کئی سنجیدہ نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے کئی فیصلے پاکستان کے خلاف آئے ہیں۔ اِنہی میں سب سے تباہ کن فیصلہ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) کا تھا۔ یہ فیصلہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریکوڈک پر ٹی تھیان کمپنی کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر عالمی عدالت نے آسٹریلوی کمپنی ٹی تھیان کے حق میں سنایا جس میں پاکستان پر تقریباً 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد ٹی تھیان کمپنی نے 6 ارب ڈالر کے جرمانے کی سزا پر عملدرآمد کیلئے برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور پی آئی اے کی انویسٹمنٹ کمپنی PIAL کے دو قیمتی اثاثے روز ویلٹ ہوٹل نیویارک اور اسکرائب ہوٹل پیرس جن کی مالیت اربوں ڈالر ہے، کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے حکم امتناعی بھی حاصل کرلیا۔ پاکستان نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ روز ویلٹ ہوٹل اور اسکرائب ہوٹل پاکستان نہیں بلکہ پی آئی اے کی ملکیت ہیں لہٰذا پاکستان پر عائد جرمانے کو پی آئی اے کے اثاثوں سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ دنوں مذکورہ عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پی آئی اے کے اثاثے بحال کردیئے اور اس طرح روز ویلٹ اور اسکرائب ہوٹل ہتھیانے کی کوشش وقتی طور پر ناکام ہوگئی ہے۔

اس حوالے سے مزید کچھ تحریر کرنے سے قبل بتاتا چلوں کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخیرے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ 1993میں اس وقت کی بلوچستان حکومت نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی کو دیا تاہم جنوری 2013میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا جس کے خلاف ٹی تھیان نے عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل میں 8.5ارب ڈالر کا دعویٰ دائر کیا اور جولائی 2019میں ICSID ٹریبونل نے معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر پاکستان کو تقریباً 6ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا۔ بعد ازاں ٹی تھیان نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت میں جرمانے کی وصولی کیلئے پی آئی اے کے یہ ہوٹلز ہتھیانے کا فیصلہ کیا اور اگر اس میں آسٹریلوی کمپنی کامیاب ہوجاتی تو مستقبل میں پی آئی اے کے جہازوں کو بھی مختلف ممالک میں ہتھیایا جاسکتا تھا۔بین الاقوامی عدالت سے پی آئی اے کے حق میں فیصلے کو حکومتی وزراء نے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا اور میڈیا میں یہ تاثر ابھرا کہ گویا پاکستان پر عالمی عدالت کی جانب سے عائد کیا جانے والا 6ارب ڈالر جرمانے کا فیصلہ ہمارے حق میں آگیا ہے جو کہ قطعاً درست نہیں بلکہ عالمی عدالت کی جانب سے پاکستان پر عائد کئے گئے 6 ارب ڈالر جرمانے کی تلوار اب بھی پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ مذکورہ کیس میں پاکستان کے حق میں فیصلے کی اہم وجہ حکومت کا یہ مضبوط موقف تھا کہ پی آئی اے کے یہ ہوٹلز حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہی موقف براڈشیٹ کیس میں اختیار کیوں نہیں کیا گیابلکہ حکومت نے ہائی کمیشن کے بینک اکائونٹ میں جرمانے کی رقم منتقل کرکے براڈشیٹ کو اکائونٹ منجمد کرنے کاموقع فراہم کیا جبکہ فیصلے کے خلاف کوئی اپیل بھی دائر نہیں کی، نتیجتاً پاکستان کو 6.5 ارب روپے کا ٹیکہ لگا۔

میں یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری عدالتوں کو شاید حساس نوعیت کے بین الاقوامی معاہدوں کی اہمیت اور انہیں یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے مالی نقصانات کا اندازہ ہی نہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جن کی پوری زندگی قانونی امور میں گزری ہے، انہوں نے عالمی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے اس فیصلے کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ نیب سیاستدانوں پر اس طرح کے کیسز بناتی رہی ہے کہ ان کے کئے گئے فیصلوں سے ملکی اداروں کو نقصان اٹھانا پڑا جس کی حالیہ مثال سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ایل این جی کیس ہے جس میں نیب نے یہ موقف اختیار کیا کہ شاہد خاقان عباسی کے فیصلے سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا تو سابق چیف جسٹس کا ریکوڈک فیصلہ اس زمرے میں کیوں نہیں آتا جس کے نتیجے میں پاکستان پر 6ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا ؟پاکستان جس کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچےزندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اسے یہ معلوم نہیں کہ دوسرے وقت کا کھانا میسر ہوگا یا نہیں، ایسے میں قومی خزانے سے اربوں ڈالر کا ضیاع غریب عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

عالمی عدالتوں سے زیادہ تر فیصلے ہمارے خلاف آئے ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں کی نظریں ہمارے بیرون ملک اثاثوں پر ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وقت ضائع کئے بغیر ان اثاثوں کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرے بصورت دیگر مستقبل میں بھی بین الاقوامی عدالتوں کی جانب سے کئے گئے جرمانوں کی وصولی کیلئے پاکستان کے قیمتی اثاثے ہتھیانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین