• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
12اکتوبر 1999 کو اعلیٰ فوجی افسران نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جن افراد پر جنرل پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا ان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ امین اللہ چوہدری بھی تھے۔ 12 اکتوبر کی شام وزیراعظم نواز شریف نے امین اللہ چوہدری کو فون پر حکم دیا تھا کہ کولمبو سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 805 کو کراچی ایئرپورٹ پر نہ اترنے دیا جائے۔ چوہدری صاحب نے یہ احکامات ایئرٹریفک کنٹرول ٹاور کو پہنچائے۔ ہوائی جہاز کے کپتان ثروت حسین نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ اس کے پاس زیادہ تیل نہیں ہے لہٰذا جہاز کو نواب شاہ ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت مل گئی۔ اس دوران بریگیڈیئر جبار بھٹی نے کنٹرول ٹاور پر قبضہ کرلیا اور پی کے 805 سے کہا گیا کہ وہ واپس کراچی آ جائے۔ کراچی ایئرپورٹ پر مقامی کورکمانڈر جنرل عثمانی کا قبضہ تھا جبکہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد پر راولپنڈی کے کورکمانڈر جنرل محمود قبضہ کرچکے تھے۔ رات سات بج کر سینتالیس منٹ پر پی کے 805 نے کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو اس جہاز میں موجود آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چوتھے فوجی سربراہ بن چکے تھے۔ نواز شریف حکومت کے خلاف فوجی ایکشن کا منصوبہ پہلے سے تیارتھا۔ نواز شریف نے مشرف کے جہاز کی لینڈنگ کو روک کر اپنی حکومت بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ بعدازاں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نئے سربراہ میجر جنرل ارشد چوہدری نے نوازشریف، شہباز شریف، غوث علی شاہ، سنیٹر سیف الرحمن، شاہدخاقان عباسی، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی، آئی جی سندھ رانا مقبول احمد خان اور امین اللہ چوہدری پر پی کے 805 کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا اور تمام ملزمان کو سنٹرل جیل کراچی میں قید کردیا گیا۔ ان ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کامدعی بھی ایک فوجی افسر تھا۔ جہاز کے 198 مسافروں میں سے کوئی ایک بھی مدعی بننے کے لئے تیارنہ تھا۔
نوازشریف سمیت تمام ملزمان کوکراچی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ جیل میں امین اللہ چوہدری کو ایک کرنل صاحب ملنے کے لئے آتے تھے اور پوچھتے تھے کہ آپ نے وزیراعظم کے غیرقانونی احکامات پر عملدرآمد کیوں کیا؟ کرنل صاحب اپنی گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ سول سرونٹس کو سیاستدانوں کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کردینا چاہئے۔ ایک دن امین اللہ چوہدری نے کرنل صاحب سے کہا کہ آپ نے اپنے باس کے غیرآئینی احکامات کو مان کر فوجی بغاوت میں حصہ لیا جو غداری کے زمرے میں آتا ہے ۔ آپ نے غداری سے انکارکیوں نہ کیا؟ جواب میں کرنل صاحب نے کہا کہ ان کا تعلق ایک ایسے ادارے سے ہے جہاں ڈسپلن بہت سخت ہے اور سینئرز کے آرڈرز کو نظرانداز کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ امین اللہ چوہدری نے کہا کہ میں نے بھی ایک منتخب وزیراعظم کے حکم پر عمل کیا لیکن کرنل صاحب بگڑ گئے اور چوہدری صاحب کو کافی جلی کٹی سنائیں۔
دسمبر 2000 میں نوازشریف سعودی عرب چلے گئے لیکن امین ا للہ چوہدری کی سرکاری ملازمت بحال نہ ہوئی۔ یہی وہ دن تھے جب انہوں نے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کتاب ان کی اپنی آپ بیتی سے زیادہ پاکستان کی سول سروس کے کردار کاتاریخی تجزیہ تھا جس میں چوہدری صاحب نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بتایا کہ سیاست میں سول سرونٹس کا کیاکردار رہاہے؟ 2003 میں انہیں نوکری پر بحال کردیا گیا لیکن او ایس ڈی بنا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ 2004میں امین اللہ چوہدری 37 سالہ سرکاری ملازمت کے بعد ریٹائر ہوگئے اور دن رات اپنی کتاب کے سلسلے میں تحقیق کرتے رہے۔ اس تحقیق کے لئے انہوں نے لندن میں انڈیا آفس لائبریری کے بھی کئی چکر لگائے اور غلام محمد، سکندر مرزا اور چوہدری محمد علی سمیت ان سرکاری افسران کا پس منظر کھوجتے رہے جوانڈین سول سروس سے پاکستان کی سول سروس میں آئے اور سیاست میں ملوث ہوگئے۔ کئی سال کی محنت کے بعد 2011 میں امین اللہ چوہدری کی کتاب انگریزی میں ”پولیٹیکل ایڈمنسٹریٹرز“ کے نام سے شائع ہوئی جو پاکستان میں سول سروس کی پہلی مستند تاریخ قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں کئی سیاسی راز بھی طشت ازبام کئے گئے ہیں کیونکہ چوہدری صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے ادوار میں اہم سرکاری عہدوں پر کام کیا۔ امین اللہ چوہدری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں فوجی حکمرانوں اور سیاسی حکمرانوں نے ہمیشہ سول سرونٹس کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایماندار اور نیوٹرل سول سرونٹ سیاستدانوں کو کبھی اچھا نہیں لگتا لہٰذا سول سرونٹس اچھے عہدوں کے حصول کے لئے سیاستدانوں کی خوشامد کرتے ہیں اور یوں کوئی غلام اسحق خان بن جاتاہے، کوئی الطاف گوہر بن جاتا ہے، کوئی طارق عزیز بنتاہے اور کوئی سعید مہدی بنتاہے۔
مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب امین اللہ چوددھری پنجاب کے سیکرٹری خزانہ تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو انہیں ہٹانا چاہتے تھے کیونکہ چوہدری صاحب وزیراعلیٰ کے لئے ایک نئے جہاز کو خریدنے کے راستے میں رکاوٹ بن گئے۔ وزیر خزانہ مخدوم الطاف احمد کبھی صدر فاروق لغاری اور کبھی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ذریعے امین اللہ چوہدری کو بچانے میں مصروف رہتے۔ 1996 میں بینظیر حکومت ختم ہوئی تو امین اللہ چوہدری نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کے پرنسپل سیکرٹری بن گئے۔ پرانے ذاتی تعلق کے باعث وہ کبھی کبھی میرے پاس دفتر تشریف لاتے اور نگران حکومت میں شامل وزراء کے دلچسپ قصے مزے لے کر سناتے ۔ چوہدری صاحب کو ہمیشہ یہ بات تکلیف دیتی تھی کہ سیاستدان سرکاری افسران کے ذریعے سیاست کرتے ہیں اور سرکاری افسران کو بھی سیاستدان بنا دیتے ہیں۔ 1999 کے بعد ان سے بہت کم ملاقاتیں ہوئیں لیکن انہوں نے مجھے بتا دیا کہ وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ کچھ واقعات کی تصدیق کے لئے مجھے فون کرتے۔ جب ان کی کتاب شائع ہوگئی تو انہوں نے بڑے اہتمام سے یہ کتاب مجھے بھیجی۔ ان کی کتاب کافی دن تک میرے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی رہی۔ میں بیک وقت دو دو تین تین کتابیں پڑھنے کا عادی ہوں۔ اس کتاب کا کچھ حصہ ہی پڑھا تھا کہ چنددن قبل اطلاع ملی امین اللہ چوہدری انتقال کرگئے۔
آج صبح میں نے ان کی کتاب کا آخری باب ختم کیا تو احساس ہوا کہ چوہدری صاحب کی اس شاہکار کتاب پر انہیں خراج تحسین پیش نہ کرنا بڑی نا انصافی ہوگی۔ اس کتاب میں انہوں نے انکشاف کیاہے کہ نواز شریف اور فوجی جرنیلوں کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ یہ تھی کہ لاہور ایئرپورٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے فوج سے ایک بڑا قطعہ ٴ اراضی لینے میں بڑی مشکلات کھڑی ہوتی رہیں اورسول حکومت کئی مرتبہ وزارت ِ دفاع میں بیٹھے ہوئے فوجی افسران کے سامنے بے بس ہوجاتی تھی۔ چوہدری صاحب نے سول سروس میںآ نے والے فوجی افسران کے کردار پر بھی بڑی تحقیق کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ 1982 میں تین فوجی افسران کو ڈی ایم جی گروپ میں بھیجا گیا ۔ میجر قمرالزمان چوہدری اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء کے اے ڈی سی رہ چکے تھے۔ میجر افتخار علی شاہ اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد جنرل فضل حق کے بھتیجے اور میجر ندیم منظور اس وقت کے طاقتور جرنیل کے ایم عارف کے داماد تھے۔ چوہدری صاحب نے 1971سے 2006 تک فوج سے سول سروس میں آنے والے تمام افسران کی فہرست اپنی کتاب میں شامل کردی۔ ان میں سے کئی افسران آج فیڈرل سیکرٹری ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں بھی اہم کردار بنیں گے۔ چوہدری صاحب 1988 میں کمشنر لاہور تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کی تو نوازشریف نے جنرل ضیاء کا ساتھ دیا لیکن غلام حیدر وائیں نے جنرل ضیاء کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں نوازشریف نے وائیں صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا ۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ 1996 میں سعید مہدی کی والدہ شیخ زید ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ نوازشریف عیادت کے لئے وہاں گئے تو سعید مہدی سے وعدہ کرلیاکہ اگروزیراعظم بن گیاتو آپ کو پرنسپل سیکرٹری اور آپ کے بھائی رفعت مہدی کو فارن سیکرٹری بناؤں گا۔ 1997 میں نوازشریف وزیراعظم بنے تو رفعت مہدی فارن سیکرٹری تونہ بن سکے البتہ سعید مہدی چیف سیکرٹری سندھ اور پھر پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر بن گئے۔ شاید کراچی جیل میں بھی نوازشریف نے سعیدمہدی سے کوئی وعدہ کیا تھا جو ابھی پورا نہیں ہوا۔ نوازشریف اپنے وعدے ضرور پورے کریں لیکن میرٹ کاخیال رکھیں۔ وقت ملے تو امین اللہ چوہدری کی کتاب پڑھ لیں اور صرف فوج کو سیاست سے دور نہ رکھیں بلکہ سول سرونٹس کو بھی سیاست سے دور رکھیں ورنہ سیاست میں غلام محمد اور غلام اسحق خا ن پیدا ہونے کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔
تازہ ترین