• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سیاح کا قتل ، امن و آشتی کا قتل ہے ، امن بھی عالمی ۔ سو، نانگا پر بت کے حسین و جمیل اور پر سکوت دامن میں جن شیطانوں نے مختلف قومیتوں کے سیاحوں کا خون بہایا انہو ں نے عالمی امن کا قتل کیا ۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد نئی شکل اختیار کرتی دنیا کے سب سے غالب رجحان ( انٹر نیشنل ازم) کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر اپناکردارادا کیا ۔ ہم سیٹو اور سینٹو میں شامل ہو ئے تو وقت آیا کہ نا وابستہ ممالک کی تحریک ( NAM) کے رکن بھی بنے ۔
ہم نے امریکہ کے ساتھ برسوں کا ہنی مون منایاتو ماؤژے تنگ کے سوشلسٹ چین سے ہماری دوستی بھی پوری دنیا کے لیے دو ہمسایہ ممالک کے مثالی دو طرفہ تعلقات کا ماڈل بن گئی ۔ ہم نے امریکہ اور چین میں سفارتی تعلقات کا دروازہ کھولنے میں بھی اہم کر دار ادا کیا۔ بھارت سے جنگیں اور ایک طویل نفسیاتی جنگ ہماری بے چین تاریخ کا حصہ ہیں تو لیاقت نہرو معاہدہ، انڈس بیس ٹریٹی ،تاشقند و شملہ او ر اعلان لاہور بھی اسی تاریخ میں شامل ہیں ۔ افغانستان پر روسی جارحیت ختم کر نے کے لیے ہمار ا کردار تاریخ ساز ہے ۔ دنیا میں سرحدوں کے احترام کی کاز میں ہم نے سرحد پار سے آئے ریکارڈ تعداد کے مہاجرین کو پناہ دی ۔ یہ تاریخ تو اب دنیا اور خود ہمارے لیے تاریخ کی کہانیاں معلوم دیتی ہیں کیونکہ ہمیں اپنے اس کردار کو دنیا سے منوانا ہی نہیں آیا ۔ پاکستان کا یہ کردار کوئی ختم نہیں ہوا ، اس میں ایسی پائیداری ہے کہ ہمیں کوئی نہ کوئی عالمی کردار ملتا ہی رہتا ہے ۔ جب سے افغا نستا ن عالمی طاقتوں اور تنہا طاقت کا تختہ مشق بنا ہے ، پاکستان کا سخت وقت جاری ہے ۔ افغانستان میں ہرطرح کا اسلحہ آزمایا جا رہا ہے اور اصلی جنگ بھی جاری و ساری ہے۔
اس طرح دہکتے کابل سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان ہے ۔ 9/11کے منحوس دن امریکہ پر جو قیامت بیتی ہم اس سے کہیں زیادہ دہشت گردی سے متاثرہیں ۔ پاکستان نے امریکی دھمکی اور اپنی فراخدلی سے ایک بار پھر امریکہ کا فرنٹ لائین پارٹنر بننا قبول کیا ، وہ بھی ایسا کہ ہمارے اپنے ہزار ہا شہری اور فوجی بغیر کسی قومی مقصد کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ،کیونکہ ہم عالمی سیاست کے سر گرم ایکٹر رہے اور ہیں ۔ سو، امریکہ نے ہم سے ایسی امید باندھ لی کہ وہ جب کہے ، جیسا کہے ، اسے تب ہی ہمارے تعاون کا یقین ہو گا کہ اس میں کوئی چوں چراں نہ ہو ۔
دنیا میں امریکی غلبے کے گھیر میں غریب پاکستان کو 80ارب ڈالر بھاری نقصان بھی اٹھا نا پڑا ۔ آج یہ اپنی تاریخ کے بد ترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکی فرنٹ لائن کنٹری کا رول ادا کر تے کرتے ہم امریکیوں سمیت پوری دنیا میں دہشت گرد مانے جارہے ہیں جبکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی خود پاکستان میں ہو رہی ہے۔ ہم ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، جس میں دہشت گرد ایٹمی پاکستان پر حاوی ہیں کہ ہم ایٹمی تو ہیں لیکن کنگال بھی ۔ آج بھی ہمارے فوجی افریقہ اور دوسرے کئی ممالک میں قیام امن کو ممکن بنا رہے ہیں ۔
جنگی تنازعات کو روکے رکھنے میں پاکستانی افواج اور پولیس کا کردار عالمی برادری میں سر فہرست ہے۔ یہ عجب ہے کہ ہم ہی دہشت گرد سمجھے جاتے ہیں اور ہمیں ہولناک دہشت گردوں کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے ۔ نانگا پربت میں کوہ پیمائی کے بیس کیمپ پر مختلف ممالک کے جن دس سیاحوں اور ان کے ایک پاکستان معاون کو قتل کیا گیا یہ کوئی محض پاکستان میں دہشت گردی کا واقعہ نہیں ۔ اس کی نوعیت بین الاقوامی ہے۔قائد اعظم کی زیارت ریذیڈنسی کو نذرآتش کر نے کے بعد کوہ پیمائی کے لیے پاکستان آنے والے سیاحوں کے قتل کو پاکستان کو فوراً ایک عالمی مسئلے کے طور پر اٹھانا چاہیے تھا ۔ لیکن ہماری وزارت خارجہ اور حکومتی ترجمان کو جیسے گنگ لگ گئی ہو ۔ انہوں نے دہشت گردی کے اس پہلو پر مکمل چپ سادھ لی ۔حسین و جمیل اور بلند و بالا پہاڑ ، گلیشیئرز ، وائلڈ لائف اور تہذیبی و تاریخی ورثے پوری عالمی برادری کی میراث سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کے مطالعے ، مشاہدے اور یہاں سیاحت ہر ملک کے شہری کا حق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ دنیا کے امن پسند ترین شہری بھی ، اس قدرتی تاریخی اور عالمی ثقافتی ورثے کی جانب رخ کرتے ہیں ۔ زیارت ریذیڈنسی کو مسمار کر نے کے فقط ایک ہفتے کے بعد نانگا پربت کے دامن میں یوکرائن ، چین ، امریکہ ، لیتھوینیااور نیپال کے شہریوں کے قتل پر کوئی پاکستانی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ کسی پاکستانی ( حتی کہ شدت پسند بھی ) کا مکروہ کام ہے ، جو پوری پاکستانی قوم کے لیے اب ایک سنگین چیلنج بن گیا کہ وہ کس طرح اس سنگین صورت حال سے نمٹتی ہے ۔ جو اس حد پر پہنچ گئے ہیں ، ان کے مذموم ارادے کہاں تک نہیں ہو نگے ؟ تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ اس میں توا تر نظر آ رہا ہے ۔ چیلنج یہی نہیں کہ قوم پاکستان کے خلاف کسی بڑے شیطان ذہن کی دہشت گردی کے خلاف متحد اور سر گرم ہو بلکہ اسے بین الاقوامی مسئلے کے طور پر اقوام متحدہ، کوہ پیمائی کے کلب ، بنیادی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اورسیاحوں میں اس طور اٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی برادر ی سے کاٹنے کی ایک گھناؤنی سازش کو ناکام بنانے میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ جن پر داخلی سلامتی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ان کی غیر اعلانیہ بے بسی تو اب واضح ہے ۔ حکومت جو اب قومی خودی کے نعروں کو بھول کر آئی ایم ایف کی نئی رسیوں میں خود کو جکڑنے پرآمادہ نظر آتی ہے ، اس نے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان تو کر دیا ۔ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جانے پہچانے ، دھڑلے سے اسمبلیوں میں بیٹھے ،اربوں کھربوں کی ڈکیتیوں میں ملوث لٹیروں سے لوٹ کا مال برآمد کرایا جائے اور اس ضمن میں عدالتی فیصلوں کی پابندی کے لیے میاں شہباز شریف سٹائل میں انتظامیہ کو سر گرم کیا جائے۔
تازہ ترین