برادر اسلامی ملک سعودی عرب ہماری محبتوں کا مرکز حرمین شریفین کی وجہ سے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کنگڈم آف سعودیہ عریبیہ کا عالمی سطح پر کردار مسلم دنیا کے قائد یا لیڈر کا ہے۔ چند ممالک کو چھوڑ کر او آئی سی کے ممالک کی بھاری اکثریت سعودی عرب کی اس حیثیت کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ ہر معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ سرد جنگ کے طویل دور میں سعودی عرب کمیونسٹ جبر کے خلاف مضبوط چٹان کی طرح کھڑا رہا حتیٰ کہ عرب جمہوریہ مصر جیسا عظیم الشان ملک بھی سوویت جبر کے کیمپ سے نکل کر سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا۔ پی ایل او اور اس کے قائد یاسر عرفات نے بھی عافیت اسی میں ڈھونڈی کہ سعودی سوچ سے ہم آہنگی اختیارکرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ آج بھی مڈل ایسٹ میں سعودی قیادت کا کردار توازن و اعتدال پسندی پر مبنی ہے۔فلسطین میں حالیہ لاحاصل مہم جوئی کے بالمقابل سعودی عرب نے معتدل سوچ کی حامل فلسطینی اتھارٹی کا ساتھ دیا ہے اور کوشاں ہے کہ جنگ و جدل پر امن و سلامتی کی سوچ غالب آئے۔ سعودی عرب جہاں مسلم ورلڈ کو امن و سلامتی کی راہوں پر چلانے کے لئے کوشاں رہتا ہے وہیں اپنی اس مثبت سوچ کی بدولت وہ مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق خوفناک تاثر کو خوشگوار بنانے کی کاوشیں بھی کرتا رہتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کتنے شاندار اسلامک سنٹرز ہیں جو سعودی عرب کی کوشش سے تعمیر ہوئے ہیں اور اپنی بھرپور سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح غریب مسلم اقوام کو معاشی بدحالی میں سعودی معاونت ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔ سعودی قیادت کو بھی بلاشبہ درونِ خانہ ایسی متشدد آوازوں کا سامنا رہتا ہے جن کا مشاہدہ ہم پاکستانی اپنے معاشرے میں ہر روز کرتے ہیں۔
سعودی قیادت پوری جانفشانی سے چیلنج سمجھ کر یہ جدوجہد کر رہی ہے کہ قدامت پسند سعودی سماج اور معاشرت کو کس طرح ماڈریٹ، لبرل یا متوازن بنایا جائے۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بھی اس حوالے سے خاصی خدمات سرانجام دی تھیں لیکن اب سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان جس ذمہ داری، عزم اور لگن کے ساتھ اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے کے لئے کوشاں ہیں وہ بےمثال ہے۔ عدم برداشت کے بالمقابل رواداری یا آزادی اظہار آزاد جمہوری فضا کا اثاثہ ہے لیکن اس گھٹن زدہ ماحول میں اگر فکر تازہ کا کوئی جھونکا آتا ہے تو ہمیں اس کی ستائش ضرور کرنی چاہئے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور بھیانک بیماری ہمارے معاشرے میں موجود ہے جو کہ نہ صرف تاریخی طور پر موجود رہی ہے بلکہ آج کے متوازن حالات میں بھی اس کے زہریلے دانت نہیں نکالے جا سکے اور وہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرتے ہوئے پھیلایا گیا نظریۂ جبر ہے جس سے کوئی بھی ہوش مند پاکستانی بےخبر نہیں ہے۔کہنے کو ہمارا پاکستانی معاشرہ ایک جمہوری معاشرہ ہے لیکن یہاں جس قدر گھٹن ہے اُس کا تقابل عرب مسلم معاشروں سے کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ کورونا وبا کے خلاف سعودی عرب نے مختلف النوع اقدامات اٹھاتے ہوئے جس طرح حرمین شریفین کو طویل دورانیے تک مقفل کیے رکھا، کیا ہمارے نام نہاد جمہوری پاکستانی معاشرے میں اس نوع کا بڑا اقدام ممکن تھا؟ مختلف طبقات کو سعودی قیادت جس عزم و ہمت کے ڈیل کرتی ہے اس کی تحسین نہ کرنا پرلے درجے کی کم ظریفی ہو گی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور نے مساجد کے اسپیکرز کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک نئی پالیسی نافذ کی ہے جس کے مطابق آئندہ سے اسپیکرز صرف اذان اور اقامت کیلئے استعمال ہو سکیں گے۔ مساجد کے اسپیکرز سے تلاوت اور خطبات کو یکسر روک دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل 2017میں جب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تھی تو سعودی معاشرے میں اِس کے خلاف بھی کئی آوازیں اٹھی تھیں مگر سعودی قیادت نے اس پر ثابت قدمی دکھائی مابعد سعودی خواتین کو ان کے شوہروں کی اجازت کے بغیر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی اور غیر محرموں کے بغیر باہر نکلنے پر پابندیاں بھی ہٹا دی گئیں۔ نیز سعودی عرب میں سینما گھرکھولنے، موسیقی کی تقریبات منعقد کرنے اور خواتین کو تفریحی مقامات پر محرم کے بغیر جانے کی اجازت جیسے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں، تنقیدی آوازیں بھی اب بڑی حد تک دبتی چلی جا رہی ہیں۔ اگر ریاست ہمت و حوصلہ دکھائے تو اشتعال انگیزی و جنونیت پر مبنی قدامت پسندانہ نعرے بازی جھاگ کی طرح بیٹھ سکتی ہے جس کے خوف سے ہمارے لوگوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ عوامی الناس کو اشتعال دلاکر جنونی لوگ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ایسی مصنوعی پھونک بھرنے والے کون لوگ ہیں؟ اور انہیں جنونیت کے اس پھیلائو سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ایسےمیں سعودی اقدامات ہی ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔