• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نوازشریف نے اپنی حکومت کے ”ہنی مون“ کے ابتدائی دنوں میں ہی دو ٹوک الفاظ میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے صرف 19 دن بعد ہی انہوں نے کہہ دیا کہ مشرف کو اپنے آئین شکن اقدامات کا حساب دینا ہوگا۔ جس نے بھی سابق آمر کو اپنی پُرآسائش زندگی چھوڑ کر واپس پاکستان آنے کا مشورہ دیا وہ یقینا ان کا دشمن ہے اب وہ صرف اس دھکا دینے والے کو یاد کرکے واویلا ہی کر سکتے ہیں اور کوئی ان کی آہ و پکار سننے کو تیار نہیں۔
جب سے مشرف پاکستان لوٹے ہیں زیرحراست ہیں گو ان سے ایک عام قیدی والا سلوک نہیں ہو رہا اور نہ ہی ان کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے جو انہوں نے اپنے دور حکومت کے عروج پر سیاستدانوں خصوصاً نون لیگ کے رہنماؤں بشمول نوازشریف سے کیا تھا۔ وہ اپنے فارم ہاؤس میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں مگر ہیں تو قیدی ہی۔ صرف ایک احمد رضا قصوری ہی بچے ہیں جو ان کا مقدمہ ہر جگہ لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ درجنوں سیاستدان جو آمر کے دور میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے میں سے کوئی بھی مشرف کے بارے میں ہمدردی کا ایک لفظ بھی کہنے کو تیار نہیں ۔یہ کسی طرح بھی کوئی کم سزا نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اپنے بالکل ابتدائی دنوں میں وزیر اعظم، مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کے بارے میں کچھ مزید عرصہ خاموش رہتے کیونکہ پہاڑ جیسے دوسرے بے شمار مسائل ہیں جو فوری حل طلب ہیں مگر نوازشریف کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مشرف کے بارے میں ایک واضح اعلان نہ کرتے۔ سابق صدر کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ تیزی سے جاری ہے اور جج صاحبان غیر مبہم حکومتی موقف جاننا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کی منظوری کے بعد صاف کہہ دیا کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ سپریم کورٹ اپنے 31 جولائی 2009ء کے فیصلے میں مشرف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرار دے چکی ہے جب اس نے سابق صدر کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات بشمول آئین کی معطلی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اب جو درخواستیں عدالت میں زیر سماعت ہیں وہ صرف31 جولائی والے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ہیں۔ عدالت کے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنے ہی 31 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد پر زور دے اور اگر حکومت ایسا نہ کرے تو ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلائے لہٰذا وزیراعظم کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ گزشتہ حکومت کی طرح مختلف بہانوں سے کام لیتے اور عدالت کی کارروائی کو تاخیری حربوں کی نظر کر دیتے تاکہ کسی طرح اس کے حکم پر فوری عملدرآمد نہ ہوسکے۔ اقتدار میں آنے سے قبل ہی نوازشریف نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ آزاد عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے۔ ان کی حکومت کے پہلے ہی دو ہفتوں کے دوران دو بڑی واضح مثالیں سامنے آئی ہیں۔ جب عدالت عظمیٰ نے جنرل سیلز ٹیکس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کو غیر قانونی قرار دیا تو حکومت نے بغیر تحفظات کے اس پر فوری عملدرآمد کر دیا۔ دوسرے اس نے عدالت کے فیصلے سے قبل ہی وزیر قانون زاہد حامد کا محکمہ تبدیل کر دیا۔
پارلیمان میں تمام جماعتوں نے وزیراعظم کے اعلان کی کھل کر حمایت کی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ان میں شامل تھیں۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا یہ مطالبہ کہ آمروں کی تصاویر تمام اداروں سے ہٹا دی جائیں بہت ہی اچھا سیاسی نعرہ ہے مگر ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ پانچ سالہ دور میں انہوں نے ایسا کرنے کا کیوں نہ سوچا۔ ایسا کرنا تو ایک طرف انہوں نے تو آمر کو اقتدار سے رخصتی کے وقت انتہائی بے شرمی سے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا اور صدر آصف علی زرداری ہمیشہ کہتے رہے کہ ان کا مشرف کو بڑے آرام سے اقتدار سے نکالنا ایک سیاسی معرکہ تھا مگر ان میں تو ذرّہ برابر بھی جرأت نہیں تھی کہ وہ مشرف کے خلاف کوئی چھوٹا سا ہی مقدمہ قائم کردیتے۔ حالانکہ نواب اکبر بگٹی قتل ہو چکے تھے اور عدالت عظمیٰ نے مشرف کو آئین توڑنے کا مرتکب بھی قرار دے دیا تھا۔ ہمیں نہیں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی خلوص دل سے وزیراعظم کے فیصلے کو سراہ رہے ہیں بلکہ ان کی حمایت سوائے اس کے ”شیر بن شیر“ والی بات ہے۔ اندر سے یہ خوش ہیں کہ نوازشریف نے شروع میں ہی اسٹیبلشمنٹ سے سینگ پھنسا لئے ہیں ، وہ اس ٹریپ میں بری طرح پھنس جائیں گے اور انہیں اقتدار سے جلد ہی رخصت ہونا پڑے گا۔ یہ ہیں ان کی خام خالیاں اور خوش فہمیاں۔
بلاشبہ نوازشریف نے بے مثال جرأت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ صرف وہی کر سکتے ہیں کہ ایک سابق آرمی چیف کا غداری کے الزام میں ٹرائل کریں ورنہ ہمارے ہاں تو وزیراعظم ہر وقت ڈرے ہی رہتے ہیں اور اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے کسی ایکشن سے کہیں فوج ناراض نہ ہو جائے۔ وزیراعظم نے بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔ ان کے فیصلے کی ٹائمنگ بہت اچھی ہے۔ ابھی ابھی وہ ایک انتہائی صاف شفاف الیکشن جیت کر وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں لہٰذا اتنے تھوڑے عرصے میں کوئی بھی طالع آزما مداخلت نہیں کر سکتا۔ عدالت عظمیٰ موجود ہے جو بار بار کہہ چکی ہے کہ فوجی مداخلت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔ اب تو آئین کے آرٹیکل 6 میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ نہ ہی عدالت عظمیٰ اور نہ ہی کوئی ہائی کورٹ آئین توڑنے کی وجہ سے غداری کے مرتکب فرد یا افراد کو قانونی جواز فراہم کرے گی۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ مشرف ٹرائل سے پنڈورا بکس کھل جائے گا کیونکہ اس میں بے شمار افراد جو ابھی حاضر سروس ہیں یا ریٹائر ہو چکے ہیں بھی نہیں بچ سکیں گے۔ یہ مسئلہ بار بار نون لیگ اور حکومت کے بند کمرہ اجلاسوں میں بھی زیر بحث آتا رہا ہے۔ یقیناً یہ بکس تو کھلے گا اور اسے کھلنے ہی دینا چاہئے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو اور انہیں قانون کے مطابق سزا ملے۔ اگر مشرف کو سزا ملتی ہے تو یہ بلوچستان کیلئے ایک اہم پیغام ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کیلئے بھی اچھی خبر ہوگی۔ اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کے حالات بہت خراب ہوئے ہیں۔ مشرف کے کٹہرے میں آنے اور اپنے اعمال پر گرفت ان حالات کو بہتری کی طرف لے جاسکتی ہے۔
موجودہ حکومت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے رول سے کافی مطمئن نظر آتی ہے۔ وہ اس سال کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں وزیراعظم نے نئے چیف کا تقرر کرنا ہے۔ نوازشریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ماضی کے برخلاف وہ اس جنرل کو چیف بنائیں گے جو سب سے سینئر ہوگا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس سال کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ آیا عدالت عظمیٰ اپنی موجودہ کارکردگی کو برقرار رکھتی ہے یا نہیں۔ جسٹس افتخار چوہدری تو نئی تاریخ رقم کر چکے ہیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ مشرف کا ٹرائل جنرل کیانی اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی شروع ہو جائے گا۔اس کا اختتام ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوگا۔ مشرف کیلئے بہترین راستہ ایک ہی تھا جس کا مشورہ ان کو ان کے سابق ادارے نے بھی دیا تھا اور شاید وزیراعظم بھی اس پر مان جاتے کہ وہ ”سیف ایگزٹ“ لیں اور ملک سے باہر چلے جائیں۔ معلوم نہیں پاکستان میں رہ کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین