• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کے رکن اعجاز الحق نے اپنی حالیہ بجٹ تقریر میں پیسوں کے حساب کتاب کے بجائے دہشت گردی کو موضوع بنائے رکھا۔ اعجاز الحق بینکار ہیں‘ متعدد مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اس مرتبہ وہ ایک ”آفت زدہ“ الیکشن میں اپنی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوئے‘ آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ الیکشن آفت زدہ کیسے ہوگئے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ حالیہ الیکشن جائز ووٹ لینے والوں کیلئے کسی آفت سے کم نہیں تھے‘ قسمت کی ڈوری کسی کے ہاتھ میں تھی پتہ نہیں یہ ڈوری کس کس کی گردن پر پھر گئی۔ ہوسکتا ہے اعجاز الحق کے ایک پرانے استاد کو میری یہ باتیں بری لگ رہی ہوں۔ اس لئے بجٹ کی بات کرتے ہیں۔ اعجاز الحق نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کے تمام زاویوں کا احاطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ معاشی ترقی کیلئے دہشت گردی پر قابو پانا ازحد ضروری ہے۔ اعجاز الحق کو فکر مند نہیں ہونا چاہئے حکومت اس مسئلے میں بڑی سنجیدہ ہے۔ پچھلے دنوں ایک طاقتور وفاقی وزیر نے اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس بلایا تھا۔ اس اجلاس کی بڑی دھوم تھی کیونکہ وفاقی وزیر نے بڑا چرچا کررکھا تھا‘ اجلاس مقررہ تاریخ کو ہو تو گیا مگر تین خفیہ اداروں کے سربراہوں نے اجلاس میں شرکت نہ کی‘ نہ آنے کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ وہ وزیراعظم کے انڈر ہیں کسی وزیر کے اندر نہیں ہیں‘ ایک سربراہ کی تو اس ”کامیاب“ اجلاس کے اگلے روز وزیراعظم کے ساتھ تصویر بھی اخبارات میں شائع ہوگئی تھی۔ دہشت گردی پر قومی پالیسی کیا بنتی جب تین سربراہ ہی غائب تھے۔ معافی چاہتا ہوں‘ غیر حاضر تھے۔ وزیر موصوف اسمبلی اجلاس کے دوران خاصے برستے رہے مگر حیرت ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ حیرت اس لئے کہ یہ باتیں واقعی بڑی حیران کن ہیں کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سنجیدگی سے کوشاں ہے مگر چند اداروں نے اس کاوش کو بے جان کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے مرحلے پر دعا ہی جاسکتی ہے کہ جب کراچی میں موت کی جھڑی لگی ہوئی ہو۔ کوئٹہ میں بارود کی بو ہو‘ خیبر پختونخوا میں جنازوں میں شرکت مشکل بن چکی ہو اور پنجاب میں آزادانہ گھومنا پھرنا محال ہوچکا ہو، گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے لاشوں کی آمد شروع ہوچکی ہو تو ایسے بے ثمر موسم میں دعا سے بڑا ہتھیار کیا ہوسکتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس سچ کو کون مات دے کہ جب پورا کا پورا شہر سیکورٹی اداروں کے حصار میں ہو تو پھر دہشت گردی کیسے ہوجاتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ سیکورٹی اداروں کو تمام تر سہولتیں دے رکھی ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ جس روز سے چوہدری صاحب وزیر داخلہ بنے ہیں امن و امان کی صورتحال اور بھی گمبھیر ہوگئی ہے دہشت گردوں کی جادونگری میں گھی کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔ کراچی پہلے ہی کرچیوں میں بٹا ہوا تھا‘ بلوچستان میں قائد کی نشانی کو خاکستر کرکے رکھ دیا گیا‘ حالیہ الیکشن کے بعد سے صوبائی اسمبلی کے تین اراکین دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں‘ وفاقی وزراء کو دھمکی آمیز پیغامات مل رہے ہیں‘ چیلاس کے سانحے نے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سانحے نے سیاحوں کی پاکستان آمد کو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنادیا ہے۔
دہشت گردی کے ڈراؤنے بھوت کے سائے اب پاکستان کے محفوظ ترین علاقوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ یہ خطا کسی عام پاکستانی کی نہیں ہے بلکہ امن وامان فراہم کرنے والے اداروں کی ہے کہ جو کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں‘ یہ ادارے بروقت اطلاع بھی نہیں دے پاتے مثلاً سری لنکن ٹیم پر حملے کی اطلاع بڑے بڑے خفیہ ادارے نہ دے سکے مگر پولیس کے ایک چھوٹے سے خفیہ ونگ نے یہ اطلاع دے دی تھی مگر اس اطلاع کو معتبر نہ سمجھا گیا حالانکہ یہ اطلاع واقعہ سے چوبیس گھنٹے پہلے دی گئی تھی اسی طرح جی ایچ کیو اور جنرل مشرف پر حملے کی اطلاع بھی اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ اداروں کو نہ ہوسکی تھی۔ یہ کام بھی ایک ہلکے ونگ نے کیا مگر ایک مرتبہ پھر سے بارہ گھنٹے قبل دی جانے والی اطلاع کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایسے ہی لوگوں سے سن سنا کر اطلاع دے دیتے ہیں۔ اداروں اور دہشت گردوں میں چالاکی اور ہوشیاری کی ایک جنگ رہتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے درست کہا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے اندر کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب جنرل مشرف پر قاتلانہ حملے ہوئے تھے تو مری کے رہائشی کرنل خالد عباسی کا کورٹ مارشل ہوا تھا موصوف کسی نہ کسی جگہ ملوث ضرور پائے گئے تھے اب ان کے فرزند عبداللہ کا کمال بھی سامنے آیا ہے۔ 9 مئی کو بے نظیر بھٹو شہید کے مقدمے میں پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو اسلام آباد میں شہید کردیا گیا‘ اسی شام عبداللہ کے والد کرنل (ر) خالد عباسی نے راولپنڈی کے تھانہ رتہ امرال میں پرچہ درج کرایا کہ ان کا بیٹا ڈھوک حسو گیا ہوا تھا۔
پورے معاشرے کی عجیب صورتحال ہے‘ ہمارے معاشرے ہی میں سے کئی لوگ دہشت گردوں پر پھول نچھاور کررہے ہوتے ہیں‘ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے اراکین کھلم کھلا اور آزادانہ کام کررہے ہیں۔ فورتھ شیڈول کے لوگ بھی ایسا ہی کررہے ہیں حالانکہ یہ لوگ ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں نہیں جاسکتے مگر حیرت ہے کہ یہ لوگ تمام اداروں کی موجودگی میں کھلے عام دہشت گردوں کی اخلاقی اور مالی امداد کررہے ہیں‘ ادارے اس عمل پر خاموش ہیں۔
ہمارا مذہب دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتا ہے لیکن یہاں کالعدم تنظیموں کے لوگ اپنے مذہب کے مختلف گروہوں کا احترام نہیں کرتے‘ نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں، ان تقریروں میں وہ اکابرین اسلام کو بھی نہیں بخشتے، شرانگیزی پھیلانا ان کالعدم تنظیموں کا شیوہ بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ان گروہوں کو ہمارے بعض ممالک کی حمایت حاصل ہے‘ ایک دوست نے تو انتہا کردی ہے۔ ملک ہمارا ہے اور دوسرے ملکوں نے اسے میدان جنگ بنا رکھا ہے۔
دہشت گرد چونکہ نام نہاد مسلمان ہیں پتہ نہیں ان کی تعلیمات میں انہیں یہ حدیث مبارکہﷺ کیوں نہیں پڑھائی جاتی کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے“۔ دہشت گردی کو پروان چڑھانے کیلئے بعض مذہبی اجتماعات کا بھی کردار نمایاں ہے مثلاً پندرہ جون کو سول کلب گوجر خان میں ایک جلسہ ہوا‘ اس میں مذہبی منافرت پر مشتمل تقاریر کی گئیں‘ یہ سرکاری عمارت اسسٹنٹ کمشنر گوجر خان کی نگرانی میں آتی ہے کسی نے گوجر خان کی انتظامیہ سے یہ تک نہیں پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ سرکاری عمارتوں کا مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے استعمال ایک سوالیہ نشان ہے۔ مذہب کے نام پر موت تقسیم کرنے والوں کا قلع قمع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں سیاست جرم بن گئی ہے۔ جب اہل سیاست اور ادارے مصلحتوں سے کام لیں گے تو پھر لوگ مصطفی کمال اتاترک کے آنے کی دعائیں کریں گے کہ مذہب امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔ پاکستان کے موجودہ معاشرے کی تصویر کشی سرور ارمان نے شعری اسلوب میں کچھ اس طرح کی ہے کہ
مقتل کھلے ہوئے ہیں مقفل خدا کا گھر
مذہب شکم پرست اناؤں کی زد میں ہے
حیرت سے تک رہی ہیں عقیدت کی بستیاں
ایک کائنات کتنے خداؤں کی زد میں ہے
تازہ ترین