• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس موضوع پر لکھنا ننگے پاؤں تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہو گا کہ پار اتر بھی جاؤ تو پاؤں لہولہان ضرور ہوں گے۔ آج کل ”آمروں“ اور ”آمریت“ کے خلاف بہت شور ہے جسے سن کر ”چور مچائے شور“ والا محاورہ یاد آتا ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کے اعلان پر کچھ لوگوں نے بیک زبان فرمائش کی کہ ”تمام اداروں سے فوجی آمروں کی تصاویر ہٹائی جائیں“ ۔ کیا یہ انتہائی معزز جینئس اتنا بھی نہیں جانتے کہ ماضی کو تو قدرت بھی تبدیل یا وائٹ آف نہیں کر سکتی تو یہ کس کو دھوکہ دینے چلے ہیں؟ ایک مشہور برطانوی پارلیمنٹرین کا کہنا ہے کہ ”جو شخص تاریخ کے ساتھ ٹمپرنگ کرتا ہے وہ اس بدنصیب بوڑھے کی مانند ہے جس کی بینائی بہت کمزور ہو لیکن اس کے باوجود وہ اپنی نظر کی عینک کو اپنے ہاتھوں سے چکنا چور کر دے“۔ لیکن ہمارے ہاں تو ایسے جاہلوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ بچوں کو برصغیر کی تاریخ پڑھانے سے پہلے چندر گپت موریہ اور اشوکا دی گریٹ کو سنسر کر دیا جائے۔ ایسے ہی ایک نیم خواندہ جنونی سے میں نے پوچھا تھا کہ ایسی کٹی پھٹی، ادھوری اور ٹمپرڈ تاریخ پڑھنے کے بعد اگر کوئی پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جائے اور محمد بن قاسم سے پہلے اپنے خطے کی تاریخ سے بالکل بے خبر ہو تو اندازہ لگاؤ کہ اسے دیار غیر میں کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی ”علمی فضا“ میں ان لوگوں کا کیا قصور جن کی وجوہات شہرت میں کہیں جعلی ڈگری ہو تو کہیں دھاندلی۔
فوجی آمروں کی تصویریں تو نکال دو گے لیکن کیلنڈر کے ہر اس سال کا کیا کرو گے جو فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے گھنے سایوں میں گزرا؟ ٹوپی والوں کے خلاف ٹوپی ڈرامہ زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ فوجی آمر نہ ہوتے تو آج کے بہت سے جمہوری چیمپیئنز کا کہیں نام و نشان تک نہ ہوتا۔ نام نہاد ”خاندانی“ اور ”موروثی“ سیاست دان ان بیچاروں کو اسمبلیوں کے قریب سے بھی نہ گزرنے دیتے۔ مجھے جنرل ضیاء کبھی نہیں جچا، میں نے اپنی نفرت کبھی چھپائی بھی نہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر جنرل ضیاء الحق نہ ہوتا تو میاں نواز شریف بھی تحریک استقلال میں ہی تاریخ بن چکے ہوتے۔ کیا پنجاب کے مونچھوں، توندوں، ڈیروں، شکاری کتوں اور مریدوں والے سیاسی ”پشتینی”رؤسا معززین اور خاندانی“ ایک غیر سیاسی سیلف میڈ محنت کش گھرانے کے کسی نواز شریف کو اقتدار میں آنے دیتے؟ سچ یہ ہے کہ انہوں نے تو آج تک دل سے اسے تسلیم نہیں کیا لیکن یہ ”سروائیورز“ ہیں، ہر طرح کے حالات میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا… بہت سے قائدین کا وجود انہی فوجی آمروں کا مرہون منت ہے۔ دوسری طرف جب فوجی آمروں کی بات ہوتی ہے تو آئین کے تقدس کی تکرار اور جمہوری گھنگرؤں کی جھنکار بھی ضرورت سے زیادہ سنائی دیتی ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ جب اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک لے جائے جاتے ہیں تب آئین کا تقدس کس ترازو میں تل رہا ہوتا ہے؟ جب ”آئی جے آئی“ بنتی ہے تب آئین کی تکریم کیا بیچ رہی ہوتی ہے؟ جب SRO تبدیل ہوتے ہیں تب آئین کی حرمت کس شاپنگ مال کے کون سے شو روم میں ٹنگی ہوتی ہے؟ جب میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر پوسٹنگز، ٹرانسفرز اور پروموشنز ہوتی ہیں تب آئین کا احترام کس بھاؤ نیلام ہوتا ہے؟ جب رہائشی، کمرشل اور زرعی پلاٹ چمچوں کڑچھوں میں تقسیم ہوتے ہیں تو یہ آئین کی کون سی تعظیم ہوتی ہے؟ جب عام آدمی تھانے اور پٹوار خانے میں ذلیل ہوتا ہے تو کون سی آئینی شق پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا ہے؟
آئین کی توہین و تذلیل فوجی ہو یا جمہوری، وردی پہن کر کی جائے یا فتوئی اور شیروانی پہن کر، ایک ہی بات ہے اور اس واردات میں سبھی ملوث ہیں۔ رہ گیا یہ بودا اور کھوکھلا دعویٰ کہ قوم کا مزاج جمہوری ہے تو اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کیونکہ میں نے ایوب خاں سے لے کر پرویز مشرف تک ہر آمر کی آمد پر عوام کو جشن مناتے دیکھا ہے۔ کہانی صرف اتنی ہے کہ وہ ”جمہوری“ سے مایوس ہو کر ”فوجی“ کی طرف بھاگتے ہیں اور ”فوجی“ سے تنگ آ کر ”جمہوری“ کی طرف لپکتے ہیں لیکن ہر کوئی انہیں اپنے حصہ کے زخم دے کر چلتا بنتا ہے۔ وجہ یہ کہ ”فوجی“ ہو یا ”جمہوری“… بنیادی کام کوئی نہیں کرتا، سب کا سارا زور لیپا پوتی اور کاسمیٹک سرجری تک محدود ہوتا ہے۔ نہ میرٹ، نہ دیانت، نہ نیت، نہ اہلیت، نہ حیثیت۔ فوکس فقط اس تک محدود کہ اقتدار کو پائیدار کیسے بنانا ہے؟
آج بھی حالات جس رفتار سے جس سمت جا رہے ہیں، سال ڈیڑھ کے اندر اندر لوگوں کی چیخیں بلکہ چانگڑیں چاند کیا مریخ پر بھی سنائی دیں گی۔ ایسی دھماکہ چوکڑی کہ جمہوری ہرن چوکڑیاں بھرنا بھول جائے گا۔ یہ سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے کہ ”خزانہ خالی ہے“ ہر آنے والا ایک ہی ترانہ بجانا شروع کر دیتا ہے، ”خزانہ خالی ہے“۔ عوام بد سے بدتر، ملک بری طرح مقروض تو یہ ”خزانہ“ جاتا کہاں ہے؟
فوجی آمروں کی تصویروں میں اپنی تدبیریں اور تقدیریں دیکھو، وہ کبوتر نہ بنو جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند کر خود کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ فوجی آمروں کی تصویریں وہ آئینے ہیں جس میں جعلی جمہوریت اپنا چیچک زدہ چہرہ دیکھ سکتی ہے اور یاد رہے آئینے توڑنے سے بدصورت چہرے خوبصورت نہیں ہو جاتے۔
تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی
مجھ سے تو مری بگڑی تقدیر نہیں بنتی
نوٹ: لوڈشیڈنگ 18 گھنٹے تک پہنچ گئی ہے اور لوڈشیڈنگ کا ہر گھنٹہ 60 نہیں 160 منٹ کا ہے جسے سال کے 365 دنوں سے ضرب دے کر الیکشن کے اصلی اور حتمی نتائج پر پہنچا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین