• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرم کتنا سنگین ہو کہ اُسے سنگین تصور کیا جائے ؟ بظاہر اس کا انحصار جرم کی نوعیت پر ہے۔ آپ جس سے چاہیں یہ سوال پوچھ لیں۔ جواب یہی ملے گا کہ جو جرم سنگین ہو اسے سنگین تصور کیا جائے لیکن حقیقت یوں نہیں، جرم کتنا شدید یا کتنا معمولی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس معاشرے میں سرزد ہوا ہے، دنیا کے کس علاقے میں کیا گیا ہے اور یہ کہ جہاں سرزد ہوا ہے وہاں کی نئی پرانی روایات اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
میرا اشارہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے امتحانات کی طرف ہے۔ یہ یونیورسٹی صرف اپنے ہی ملک میں نہیں، دنیا بھر میں لڑکے لڑکیوں کا امتحان لیتی ہے۔ اس کے امتحان کا معیار اعلیٰ اور اسی مناسبت سے اس کی ساکھ بہت بلند تصور کی جاتی ہے۔ اس امتحان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پرچے ترتیب دینے اور پھر امتحان کی کاپیاں جانچنے کا معیار سختی سے وہی ہے جو کیمبرج یونیورسٹی کی اپنی حدود میں ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یونیورسٹی جس ملک میں بھی امتحان لیتی ہے وہاں کی تعلیمی ضروریات اور لوازمات کو پیشِ نظر رکھتی ہے ۔ مثال کے طور پر پاکستان کے امتحانات میں بیٹھنے والے طالب علموں کے لئے اسلامیات اور مطالعہٴ پاکستان کے مضامین لینا لازمی ہے چنانچہ کیمبرج یونیورسٹی جہاں دوسرے مروجہ مضامین کا امتحان لیتی ہے ، ان دو مضامین کو بھی اپنے نصاب میں شامل رکھتی ہے۔
انگلستان میں امتحانی پرچوں کی رازداری کا بس اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنا رکھا جانا چاہئے۔ یہ نہیں ہوتا کہ پرچوں پر پولیس کا پہرہ بٹھایا جائے یا تمام کاغذی کارروائی سات تالوں کے اندر کی جائے۔ یہ بس ایک پرانا نظام ہے کہ پرچے خاموشی سے ترتیب دےئے جاتے ہیں اور جب تک کمرہٴ امتحان میں انہیں تقسیم کرنے کا لمحہ نہ آجائے ، وہ محفوظ رہتے ہیں۔ نہ کوئی اس ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح پہلے سے پرچے چرالئے جائیں، نہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ طالب علموں کو قبل از وقت معلوم ہو جائے کہ ممتحن نے کیا سوالات پوچھے ہیں۔ یہاں چوری چھپے ہونے والی کارروائی کا کوئی تصور نہیں اس لئے رازداری کے لئے نہ کوئی تردّد ہوتا ہے ، نہ وہ شے ہوتی ہے جو پاکستان اور ہندوستان میں سیکورٹی کہلاتی ہے۔
برسہا برس سے جاری ان امتحانات میں چونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا اس لئے کہیں کوئی پریشانی یا تشویش دیکھنے میں نہیں آتی البتہ اِس بار، جی ہاں اس مرتبہ جانے کس نے ، کب اور کہاں موقع ملتے ہی کم سے کم دو پرچوں پر ہاتھ صاف کردیا اور وہ اسلامیات اور مطالعہٴ پاکستان کے پرچے لے اُڑا۔ یہ راز اُس وقت کھلا جب ہزاروں لڑکے لڑکیاں یہ سارے پرچے حل کرکے فارغ ہو چکے تھے۔
پرچہ آؤٹ ہونے کی خبر عام ہوئی تو پاکستان میں تو یوں محسوس ہوا جیسے ایک مکھی ذرا دیر کے لئے ناک پر بیٹھی تو اسے ہاتھ کے اشارے سے اُڑا دیا اور بس۔ لیکن کیمبرج میں تو گویا زلزلہ آگیا، تہلکہ مچ گیا، پرچہ چوری ہوگیا، دیکھنا، پکڑنا، جانے نہ پائے۔ کچھ اس طرح کا شور اٹھا۔ اجلاس بیٹھ گئے، دوڑ دھوپ شروع ہو گئی اور ایک بھگدڑ کا عالم دیکھنے میں آیا۔ انگلستان میں تو یہ ہو رہا تھا اُدھر پاکستان میں دیکھنے والے کچھ اس طرح دیکھ رہے تھے گویا انگریز دیوانے ہوگئے ہیں۔ ارے بھئی پرچہ ہی تو آؤٹ ہوا ہے، آسمان توٹوٹ کرنہیں گرا ہے۔
کیمبرج سے اعلان ہوا کہ نہیں۔ ان دو پرچوں کے امتحان کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ یہ پرچے اب نئے سرے سے ہوں گے۔ یونیورسٹی والوں کو لاکھ سمجھایا گیاکہ کوئی بڑا غضب نہیں ہوا ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے پھر اُن کی دلیل آئینے کی طرح انہیں دکھائی گئی کہ پرچے پاکستان میں نہیں بلکہ کہیں باہر آؤٹ ہوئے ہیں اس لئے پاکستان کے طالب علم اس چوری چکاری کے قصے میں کہیں نہیں آتے۔ بڑے دلائل دےئے گئے کہ امتحان دے کر بچے چھٹیاں منانے ملک سے باہر جا چکے ہیں ، اپنی کتابیں فروخت کر چکے ہیں، اپنے سبق دُہرا نہیں سکتے۔ اچھا، عدالت سے حکم لے آتے ہیں مگر انگلستان والوں کے آگے کسی کی ایک نہ چلی۔ اُن کی نگاہ میں یہ جرم اتنا بھاری اور اتنا سنگین تھا کہ اس میں کسی رو رعایت کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ آخر یہی ہوا کہ نئے پرچے ترتیب دےئے گئے، نئے سرے سے امتحان ہوا اور اب نئی کاپیاں جانچی جائیں گی۔
اہلِ پاکستان کے کمالات پرکوئی تبصرہ کئے بغیر میں صرف ایک مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ انگلستان میں الیکشن ہونا اور ووٹ ڈالے جانا ایک عام سی بات ہے۔ ہر چناؤ کے موقع پر یہ کام ایسے ہوجاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک بار انتخابات کے نظام میں ایک اختراع کی گئی اور پوسٹل بیلٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لوگوں کو رعایت دی گئی کے بعض مجبوریوں کی صورت میں وہ اپنا ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈال سکتے ہیں۔ پورے برطانیہ میں اس نظام نے خوش اسلوبی سے کام کیا۔ صرف ایک علاقے میں جہاں ایک صاحب بحیثیت پاکستانی امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے، ڈاک کے ذریعے لوگ ایک ہزار جعلی ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔
حکام نے آئندہ کے لئے کانوں کو ہاتھ لگائے۔شاید انہوں نے دل ہی دل میں یہ بھی کہا ہوگا۔”اِن سے کوئی نہیں جیت سکتا“۔
تازہ ترین