• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے کالم میں ہم دانشورانہ چال چلن کے حامل ایک قاری جناب پریشان ٹوبہ ٹیک سنگھوی کا خط شامل کر رہے ہیں ۔ فہم و دانش میں گندھی مدلل تحریر آپ کے عمیق مشاہدے اور وسیع مطالعہ کی واضح چغلی کھا رہی ہے۔ فکر انگیز مکتوب ملاحظہ فرمائیے ۔
برادرم وقار خان صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
آپ کے کالم شوق سے پڑھتا ہوں ۔ جناب کے خیالات و نظریات کے ساتھ اپنے علمی اختلاف کے باوجود آپ کی نثر کی زبان و بیان کی خوبیوں کا معترف ہوں۔ خوبصورت الفاظ اور جملے تو آپ کے سامنے یوں ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں جیسے کوئی لڑکھڑاتا پوڈری خیرات مانگتے وقت ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ ۔
اس جاہل معاشرے میں ناقدری کی انتہا ہے ورنہ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جس کا حل میرے پاس نہیں اور ”لغاتِ اردو“ سے لے کر ”ٹیلی فون ڈائریکٹریوں“ تک اور ”قبرستان کے جنات کی نفسیات“ سے لے کر ”ٹھگوں کے لطیفے“ تک وہ کون سی کتاب ہے جو ناچیز کے مطالعہ سے بچ نکلی ہو؟ اپنے علم و تجربے کی بنا پر ملکی و بین الاقوامی مسائل اور ان کے حل سے متعلق اپنے گراں قدر خیالات اکثر خبطِ تحریر (یہی لکھا ہواہے ) میں لاتا رہتا ہوں ،مگر صدافسوس کہ قحط الرجال کے باوجود کوئی بھی اخبار میرے رشحات قلم شائع کرنے کا روادار نہیں ۔ پچھلے ہفتے اپنے جواہر پاروں کے بھاری بھر کم بستے کے ہمراہ ایک قومی اخبار کے ایڈیٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی زبان کی پیدائشی لکنت کے باوجود انہیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر موصوف علم و ادب سے پیدل نکلے ۔ ایک مضمون کا آدھا صفحہ پڑھنے کے بعد میرے بستے کو اپنے ہاتھوں سے باندھتے ہوئے فرمانے لگے ”ٹوبہ ٹیک سنگھوی صاحب! مجھے تو آپ کے دماغ میں بھی لکنت لگتی ہے،کسی ڈاکٹر سے رجوع فرمائیے“۔ بس خان صاحب! اصلاح احوال کا جنوں سنڈی کی طرح کاٹتا ہے تو مجبوراً دوست احباب کو وقتاً فوقتاً دعوت پہ بلاتا ہوں اور پُرتکلف کھانا کھلانے کے بعد اپنے شہ پارے ان کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ خرچہ تو بہت اٹھ جاتا ہے مگر شوق کا کوئی مول نہیں ۔ سوچتا ہوں کہ اگر چند لوگ بھی میرے قیمتی خیالات سے مستفید ہو کر اپنی اصلاح کرلیں تو سودا مہنگا نہیں۔
میرے یہ دسترخوانی رفقا کھانے کے بعد اپنے اس یقین کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ خدا میرے قلم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اس یقین کے حامل بعض مہربانوں کا خیال ہے کہ کالم یا کتاب لکھنا تو بہرحال کوئی بڑا کام نہیں لہٰذا مجھے اپنے قلم کے استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت میں اس سے کوئی بڑا کام لیا جا سکے۔ ایک دوست فرماتے ہیں کہ آخر حکماء نے ازار بند ڈالنے کے لئے بھی تو قلم کو مفید قرار دیا ہے۔ کئی دوستوں کا خیال ہے کہ میں نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑ سکتا ہوں مگر مجھے علم و ادب کے صحرا میں شجرِ تنہا کہلانا مناسب نہیں لگتا۔ میں کچھ میدان دوسروں کے لئے بھی خالی چھوڑنا چاہتا ہوں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل کا مورخ یا نقاد مجھے اپنے عہد کا عظیم دانشور، ادیب، شاعر،محقق اور نجانے کیا کیا لکھتا پھرے۔ برسبیل تذکرہ ! کئی سال قبل میں نے شاعری پر بھی تھوڑی بہت طبع آزمائی کی تھی، تب میں نے اپنی ایک آزاد نظم ایک ادبی میگزین کے مدیر صاحب کو ارسال کی تھی ۔ آپ بڑے ہی بذلہ سنج اور ہنسوڑ نکلے۔ آزاد نظم کا عنوان تھا”میں کیوں زندہ ہوں؟“ مدیر صاحب کا جواب آیا ”کیونکہ تم نے یہ نظم ڈاک کے ذریعے بھیجی ہے“۔
معاف کیجئے ! تعارف اور تمہید کا سلسلہ ذرا لمبا ہوگیا۔ آپ یقین فرمائیں کہ میرے دل و دماغ پر غبار کا پہاڑ ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں اور اپنے کون کون سے احساس کی شدت اور حدت کو الفاظ کا جامہ پہناؤں۔ عالم اسلام کے خلاف مغرب کی مکروہ سازشوں کا پردہ چاک کروں ۔ سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑوں یا جادو ٹونے پر اپنی طویل تحقیق کا نچوڑ پیش کروں؟ نقاد بن کر بڑے بڑے ادبیوں اور کالم نگاروں کی املا اور گرامر کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کروں یا جگنو بن کر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کروں؟ میں جانتا ہوں کہ آپ کے کالم کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں کہ میرے اندر موجزن دریا کے چند گیلن کا بھی متحمل ہو سکے لہٰذا آج فقط قوم کو درپیش ایک نامراد مرض پر انتہائی مختصر الفاظ میں اظہار خیال کر کے اجازت چاہوں گا۔
بھائی صاحب! یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اغیار کی جدید ابلیسی ٹیکنالوجی نے ہماری پُرسکون اور با حیا زندگیوں میں ایسا ادھم مچایا ہے کہ شرفاء کے دماغ گھوم کر رہ گئے ہیں۔ لیپ ٹاپ ، انٹر نیٹ، موبائل فون ، وائی فائی ، بلیک بیری ، ایل سی ڈی ، آئی پیڈ اور نجانے کیسی کیسی خرافات نے ہماری اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ،میں اپنی تیسری زوجہ سے سب سے چھوٹے بچے کا فوٹو بنوانے کے لئے اسے اپنے ایک پرانے جاننے والے فوٹو گرافر کے پاس لے کر گیا ۔فوٹو گرافر نے کیمرے سے آنکھ لگائی اور پیار سے بچے کو مخاطب کیا کہ کیمرے کی طرف غور سے دیکھو بیٹا، اس میں سے کبوتر نکلے گا۔ دوسری جماعت کا بچہ تڑاخ سے بولا ”فوکس ایڈجسٹ کر فوٹو گرافر! جاہلوں والی بات مت کر…اور ہاں! پورٹریٹ موڈ یوز کرنا ، ہائی ریزولیشن میں تصویر آنی چاہئے…سالا کبوتر نکالتا ہے کیمرے سے ، تیرے باپ نے کبوتر ڈالا تھا اس میں؟“ آپ یقین جانیں کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اگر ہم بے حیائی کی اسی سمت چلتے رہے تو ہو چکی دنیا کی امامت اور پوری ہو چکیں اُمہ کی امیدیں،عالم اسلام کی امیدوں کے اس مرکز، سے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہم اپنی مجاہدانہ خُو ترک کر کے کتنی مشکل سے اپنے اس موقف سے دستبردار ہوئے کہ زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگ پر اٹھا رکھا ہے ۔ ہم نے مجبوراً کفار کے ناپاک قدم چاند پر پڑنے کو بھی تسلیم کرلیا۔ ہم نے اپنی روایتی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھاپہ خانہ ، بلڈ ٹرانسفیوژن ،ریڈیو، لاؤڈ اسپیکر اور ہوائی جہاز وغیرہ پر اپنے فتوے گول کر کے نہ صرف انہیں تسلیم کیا بلکہ ان کے استعمال میں بھی جُت گئے ۔ ہم نے بلب سے لے کر زندگی بچانے والی ادویات اور ٹیلی ویژن سے لے کر موبائل فون تک ازراہِ کرم ان کی ہر ایجاد کو خرید کر ان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا مگر اغیار کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ۔
حضرت! آج ہمارے معاشرے کی رگوں میں سائنس پرست اور مغربی علوم کے دلدادہ دانشوروں کے بیمار چلن کی بدولت جو زہر پھیل رہا ہے، میرے پاس اس کا تریاق موجود ہے۔ میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے ارباب اختیار کو پیشکش کرتا ہوں کہ اگر مجھے میڈیا یا کسی دوسرے موثر فورم پر وافر وقت مہیا کیا جائے تو میں اپنی طویل تحقیق کے پُرمغز نتائج فلاح انسانیت کی خاطر فی سبیل اللہ پیش کرنے کو تیار ہوں ، جن کے مطابق اس خادم نے ایسی تمام ایجادات کو جادو ٹونے کا شاخسانہ ثابت کیا ہے۔ اگر مجھے موقع دیا گیا تو میں یہ انکشاف کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا کہ خلائی سفر کی ساری داستانیں ناسا وغیرہ کے ڈرامے ہیں۔ نیز نام نہاد مریخ سے بھیجی جانے والی تصویریں اصل میں لاس اینجلس کے صحرا کے فوٹو ہیں۔ اب اجازت چاہتا ہوں ،اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی تو آئندہ بھی اپنے فن پارے پیش کرتا رہوں گا۔
والسلام۔ دعا گو: پریشان ٹوبہ ٹیک سنگھوی ۔
تازہ ترین