• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے بچوں کو تو معلوم بھی نہیں ہو گاکہ جب نیا نیا مائیکرو فون استعمال میں آیا اور بادشاہی مسجد میں اذان دی جانے لگی تو بے شمار مذہبی رہنماؤں نے اس کی مخالفت کی، بہت عرصے تک یہ بحث بھی چلی کہ یہ جائز ہے کہ نہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ہر مسجد میں مائیکرو فون ایسے لگے کہ چار چار لاؤڈ اسپیکرز کے ساتھ ان لوگوں کی طبیعت بھی خراب کرنے لگی تو بے پناہ بیمار تھے، بات آگے بڑھی تمام بچوں نے اس مائیکرو فون پر نعتیں پڑھنی شروع کردیں جمعہ کے خطبے کے علاوہ جس کا جب جی چاہا مائیکرو فون کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ کچھ ایسے مسائل بھی حل ہوئے مثلاً اگر کوئی موت اس علاقے میں ہوگئی ہے تو اس کا اعلان، محلے والوں کو خبر ہو جاتی تھی، بڑھتے بڑھتے مائیکرو فون کے بے جا استعمال کو روکنے کے لئے حکومت کو احکامات جاری کرنے پڑے کہ اذانوں کے علاوہ صرف جمعہ کے خطبے کے لئے مائیکرو فون استعمال کیا جائے گا۔
بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ انسان چاند پر چلا گیا مانوں نہ مانوں مولوی حضرات نے کہاکہ یہ بات قرین قیاس تو نہیں ہے، گیا بھی ہوگا تو چودھویں کے چاند پر گیا ہوگا اگر کوئی پہلی کے چاند پر جائے تو ہم مانیں۔
بات آئی گئی ہو گئی پہلے ریڈیو اور پھر ٹی وی پر علماء حضرات کو قرآن پاک کی ترویج کے لئے بلایا جانے لگا پھر وہی مشکل، جائیں کہ نہ جائیں، مولانا کوثر نیازی نے سب کو ترغیب دی اور ضیاء الحق کے زمانے میں تو لوگ کہنے لگے کہ میرے ٹی وی میں مولوی گھس گیا ہے کہ اس زمانے میں تو لوگوں کو وضو کرنے کا طریقہ تک سکھایا جاتا تھا گویا ہم سب نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے۔
بات آگے بڑھی میں نیشنل سینٹر کی ڈائریکٹر لگ گئی مذہبی موضوعات پر علماء کو بلانا ضروری تھا۔ پہلے تو میری آواز سن کر چپ ہو جاتے تھے۔ جواب نہیں ملتا تھا پھر سب سے پہلے مولانا عبدالقادر آزاد اور پھر مفتی محمد حسین نعیمی نے حوصلہ افزائی کی۔ نہ صرف خود آتے تھے جامعات کے بچوں کو بھی آنے کی ترغیب دیتے اور یوں ہمارے درمیان سارے فاصلے دور ہونے لگے اس حد تک کہ جب زنا اور حدود آرڈیننس کے علاوہ قانون شہادت پر خواتین نے ان علماء کو بحث کرنے کے لئے بلایا تو علماء اور خواتین کے نقطہ نظر میں بہت فرق نہیں تھا یہ الگ بات کہ آج کل یہ مہمل قوانین جس کا جب جی چاہتا ہے اسلامی نقطہٴ نظر سے قابل قبول قرار دے دیتا ہے۔
زمانے نے بہت رنگ بدلے ساری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں پولیو کے مرض میں سب سے زیادہ اعداد و شمار ظاہر ہوتے ہیں ہماری بچیاں جو اسکولوں میں پڑھاتی اور گھر میں فارغ بیٹھی ہوں وہ بڑی خوشی سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کو تیار ہو جاتی ہیں آج سے دس پندرہ برس پہلے کہا گیا کہ پولیو کے قطرے ہی حرام ہیں کہ اس میں ایسی دوائی شامل ہے جس میں مردانہ جوثومے مر جاتے ہیں دنیا بھر کے معلمین اور ڈاکٹرز نے جب اس طرح کے توہمات کو بعید از قیاس کہا اور پولیو کے قطروں کو لازمی اور بنیادی ضرورت کہا تو پھر ایک اور حربہ اختیار کیا گیا کہ ان رضا کار بچیوں کو گولی سے اڑا دیا جائے، مرتا کیا نہ کرتا بچیاں ڈرگئیں۔ یہ اڑانے والے وہ لوگ ہیں جو ملک میں اپنی طرح کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی کہانی یہاں تک پہنچی تھی کہ ایک اور قضیہ کھڑا کردیا گیا، کہا گیا کہ DNA ٹیسٹ اسلام میں حرام ہے، کہا بھی کس نے جنہوں نے ضیاء الحق کے زمانے میں کہا تھا کہ تمام سرکاری ملازمین پر داڑھی رکھنا واجب ہے، جنہوں نے کہا تھا کہ عورتوں کو اول تو مردوں کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہئے اور اگر کریں تو چادر پہن کر اور نقاب اوڑھ کر آئیں، مولانا اشرفی و دیگر صائب علماء نے اس مفروضے کو غط قرار دیا کہ DNA ٹیسٹ حرام ہے، اسی طرح کئی علماء یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ سیونگ سرٹیفکیٹ پر ملنے والا منافع حرام ہے اگر اس کو قبول کر لیا جائے تو وہ سارے ریٹائرڈ لوگ، بیوائیں کہاں جائیں گے کہ اس طرح ان کی روٹی روزی چل رہی ہے، میں نے سیونگ سینٹرز میں اتنے بزرگ خواتین و حضرات کو آتے دیکھا ہے کہ سیونگ اسکیموں کو چلانے والوں کے لئے بہت دعائیں نکلتی ہیں۔
مجھے یاد ہے پرویز مشرف کے زمانے میں دو چار سو مذہبی رہنماؤں کا وفد، امریکہ کی سیر کے لئے بھیجا گیا تھا سوائے ایک شخصیت کے باقی کسی نے جانے سے انکار نہیں کیا تھا، سب جگہوں کی سیر کی لاحول ولا بھی پڑھا، اور وطن واپس آگئے۔
ہمیں اس ترقی کی بھی ضرورت نہیں ہے جہاں کہ اب تو دوپٹہ بھی غائب ہوتا جا رہا ہے ہمیں تو فکر اور کبھی کبھی ندامت بھی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں جاری ہونے والے فتوؤں کو پڑھ کر دنیا کے لوگ کیسے ہنستے ہوں گے اور ہمارے بارے میں کیا کیا قیاس آرائیاں کرتے ہوں گے دوسری طرف فیشن ویک کی تصویریں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ یہ سب کچھ کس ملک میں ہو رہا ہے ہم اپنے عالموں کی عزت کرتے ہیں مگر جہلاء کے فتوؤں کے باعث دوسروں کے سامنے وضاحتیں پیش کرتے رہتے ہیں کہ اپنے مذہب، ثقافت اور عزت کو بھی سنبھالنا ہم سب کا کام اور فرض ہے۔
تازہ ترین