• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس برس جولائی میں کیمونسٹ پارٹی چین کی صد سالہ سالگرہ ہے کہ جس نے چین کو چین بنا دیا ۔ 1912 میں جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا تھا مگر اس دور میں سیاسی بے یقینی، وار لارڈز اور غربت کے عفریت موجود تھے اور ان کے سبب چین کی عالمی منظر نامے پر کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ ایسے حالات میں یکم جولائی 1921 میں کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانگریس ہوئی اور اس کے بعد ایک ایسی تاریخ ہے کہ جس پر بجا طور پر چینیوں کو فخر حاصل ہے۔ جب انہوں نے 1949 میں انقلاب کو ایوان حکومت میں داخل کرا دیا مگر اس وقت کمیونسٹ چین کو دنیا کے اکثر ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا ۔ جب چین کے انقلاب کی عدم قبولیت کے سبب سے چین کو خارجہ محاذ پر شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت کی چینی قیادت نے اپنے ملک کو ان حالات سے گلو خلاصی کرانے کے لئے ایک طریقہ کار اختیار کیا، انہوں نے دفتر خارجہ سے ہٹ کر کمیونسٹ پارٹی کا 1951ءمیں علیحدہ سے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ قائم کیا جو براہ راست کمیونسٹ پارٹی کے سب سے اعلیٰ ادارہ سینٹرل کمیٹی کو رپورٹ کرتا ہے ۔ اس کے مقاصد میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی سے مراسم کو استوار کرنا تھا جہاں پر اسی نوعیت کا ڈپارٹمنٹ کام کر رہا تھا مگر ہوا یہ کہ انیس سو پچاس کے عشرے میں ہی دونوں میں نظریاتی اختلافات رونما ہونے شروع ہوگئے اور اس وقت کمیونسٹ پارٹی چین میں یہ خیال تقویت پکڑتا چلا گیا کہ سوویت یونین سے ہٹ کر بھی دیگر ممالک کی کمیونسٹ جماعتوں سے روابط قائم ہونے چاہئے تاکہ وہ چین کے ساتھ اپنے ممالک کے سفارتی تعلقات دیگرممالک کی طرح قائم کرانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ جب 1978 میں چین کے رہنماؤں نے یہ محسوس کیا کہ اب معاشی حکمت عملی میں جدت کی ضرورت ہے تو اس صورت حال کا پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ نے بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے دیگر ممالک کو کمیونسٹ جماعتوں سے روابط کے ساتھ ساتھ غیر کمیونسٹ جماعتوں سے بھی راہ و رسم استوار کر لئے ۔ چین کی موجودہ کامیابیوں کو ذہن میں لایا جائے تو اس امر میں کوئی دوسری رائے ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ نے غیرمعمولی فعال کردار ادا کیا ہے ۔ اس کا اپنا ریسرچ آفس ہے جو تمام بین الاقوامی معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے اور کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو اس پر بريف کرتا ہے۔ اس ریسرچ آفس میں جانے کا مجھے متعدد بار موقع ملا ہے۔ Contemporary China کے مصنف ڈیوڈ نے 2007 میں کہا تھا کہ دنیا میں کوئی حکومت یا حکمران جماعت دوسرے ممالک کی سیاسی جماعتوں سے اتنے مراسم نہیں رکھتی جتنی کے کیمونسٹ پارٹی چین رکھتی ہے ۔ جرمن ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کی ریسرچ کے مطابق 2002 سے 2017 تک کیمونسٹ پارٹی کے 3658 وفود نے دیگر ممالک کی سیاسی جماعتوں کے وفود یا افراد سےParty to party exchange of views کے نظریہ کے تحت تبادلہ خیال کیا، اس انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کو مزید تقویت دینے کی غرض سے صدر شی نے 2017 میں ایک کانفرنس کا انعقاد کروایا جس میں تقریباً 300 مختلف سیاسی وفود کو مدعو کیا گیا اس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے صدر شی نے کہا کہ:

The party would setup communications with overseas political groups and enable 15000 of their members to visit China for inter party exchanges in the coming five years. The party wanted to engage other political parties to take more active role in tackling world problems, and not to export the "China Model"

ان چند فقروں میں صدر شی نے ناصرف یہ کہ سیاسی جماعتوں سے تعلقات کی ضرورت کو واضح کیا بلکہ انہوں نے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کی بھی اہمیت سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ۔ یہ سب پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی بہت اہم ہے کہ ان کا دنیا کے دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف امور پر تبادلہ خیال جاری رہنا چاہئے ۔ عالمی امور پر ان کے اپنے ریسرچ پر مامور لوگ ہونے چاہئے مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ حکومت کسی بھی ریسرچ سے عاری ہی نظر آ رہی ہے کیوں کہ اگر ریسرچ ہوتی تو اندازہ لگایا جا چکا ہوتا کہ کہ سی پیک پر قائم جے سی سی کی میٹنگ کے نومبر 2019 سے اب تک نہ ہونے کے کیا نقصانات ہو چکے ہیں اور کیا ہوں گے کیونکہ اس کی میٹنگ کے بغیر نئے منصوبہ جات کی منظوری نہیں دی جاسکتی۔ پرانے منصوبوں میں بھی ایم ایل ون جیسے منصوبے کسی حقیقی پیشرفت کے منتظر ہے اور ان حالات میں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ چینی صدر کا مجوزہ دورہ منسوخ ہوجائے گا مگر یہاں صرف گزشتہ حکومت کے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگائی جا رہی ہے کہ جیسے ابھی ایٹمی بجلی کہ منصوبے پر لگائی گئی ہے۔

تازہ ترین