• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: بورس یاسترناک

ترجمہ: یوسف صدیقی

صفحات: 606، قیمت: 999 روپے

ناشر: بُک کارنر، جہلم۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد دو سُپر پاورز، سوویت یونین اور امریکا کے درمیان دنیا پر بالادستی کے لیے سرد جنگ کا آغاز ہوا، تو دونوں نے ایک دوسرے کو نیچا دِکھانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ میڈیا وار بھی اس جنگ کا ایک اہم حصّہ تھی، جس میں مخصوص خبروں کی اشاعت، فلموں، ڈراموں کے ساتھ ناولز، افسانوں اور شاعری کا بھرپور’’ جنگی‘‘ استعمال کیا گیا۔ 

زیرِ تبصرہ ناول بھی اس سرد جنگ کا برسوں اہم ہتھیار بنا رہا، جسے برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں نے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔روسی زبان میں لکھا گیا یہ ناول سب سے پہلے 1957ء میں اطالوی زبان میں ترجمہ ہوکر اٹلی سے چَھپا، جسے مصنّف نے ایک صحافی کے ذریعے خفیہ طور پر روس سے وہاں بھیجا تھا۔

اسی دَوران اس کا مسوّدہ ایم آئی سکس کے ہاتھ لگ گیا، جو اُس نے سی آئی اے کو دے دیا اور پھر امریکی خفیہ ایجینسی نے اسے جعلی پبلشر کے نام سے روسی زبان میں چھاپ کر سوویت یونین پہنچانے کی کوشش کی، اطلاع پر اسے وہاں ممنوع اور خطرناک کتب کی فہرست میں ڈال دیا گیا اور مُلک میں آنے والوں کی سختی سے تلاشی لی جانے لگی۔1958ء میں اِس ناول کے مصنّف کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا، تو روس نے دباؤ ڈال کر اُسے انعام وصول کرنے سے روک دیا۔ 1965ء میں اِس پر فلم بنی، تو وہ آسکر کی10 مختلف کیٹیگریز کے لیے نام زَد ہوئی اور 5 ایوارڈ جیت بھی لیے۔

یہ ناول دنیا کے مختلف حصّوں میں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر شایع ہوتا رہا، مگر مصنّف کے اپنے مُلک میں اسے پہلی بار 1988ء میں شایع کرنے کی اجازت ملی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سوویت یونین انتہائی کم زور ہو چُکی تھی اور اگلے تین برسوں میں ایک درجن کے لگ بھگ ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اِس ناول میں ایسا کیا ہے کہ دو سُپر پاورز تقریباً 30 برس تک اس پر آپس میں اُلجھتی رہیں۔ ڈاکٹر زواگو اور ایک خاتون، لارا کے درمیان پروان چڑھتے عشق ومحبت کے گرد گھومتے اِس ناول میں 1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ 

اس انقلاب میں خانہ جنگی، ناتجربہ کاری اور ناپختہ نظریات سے جو انسانی المیے جنم لیے، وہ ہی اِس کا موضوع ہیں۔ اگر کوئی شخص خالی ذہن ہوکر اسے پڑھے، تو وہ کمیونسٹ انقلاب کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں رکھ پائے گا، یہی سبب ہے کہ روس مخالف قوّتیں اسے وہاں کے عوام تک پہنچانا چاہتی تھیں تاکہ وہ اشتراکیت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں۔ کرداروں کی بھرمار، غیر مانوس نام اور مصنّف کی سُست روی کے سبب ابتدا میں قاری قدرے بوریت محسوس کرتا ہے، مگر جب کہانی کی کڑیاں آپس میں جُڑنا شروع ہوتی ہیں، تب اسے ہاتھ سے رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

بُک کارنر نے اِس ناول کی صُورت اعلیٰ طباعت کی نئی مثال قائم کی ہے۔معروف صحافی، رؤف کلاسرا نے اسے اُن چند کتب میں شامل کیا ہے، جنھیں ہر شخص کو دنیا سے رخصت ہونے سے قبل ضرور پڑھ لینا چاہیے۔مگر ہمارے خیال میں سیاسی ذہن کے حامل افراد ہی اِس ناول سے زیادہ بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین