• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غفلت یا نااہلی؟ ایک اور ٹرین حادثہ، 55 شہید


ڈھرکی / گھوٹکی / سکھر (محمد صادق بھٹی / اقبال صدیقی/ نامہ نگاران / بیورو رپورٹ) غفلت یا نااہلی؟ ایک اور ٹرین حادثے کے بعد 55؍ افراد شہید اور 150سے زائد زخمی ہوگئے ، ڈھرکی کے قریب ٹرین کے خوفناک حادثے میں کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی 13بوگیاں پٹری سے اُتر کے دوسرے ٹریک پر جاگریں ، مسافر ناگہانی سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ صرف 2منٹ بعد مخالف سمت راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس ان سے ٹکرا گئی ، حادثہ رات 3بجکر 38منٹ پر پیش آیا اور تاریکی کے بعد فوری امداد نہ پہنچ سکی ، 2گھنٹے تک کوئی مدد کو نہ پہنچا ، لوگ زخمیوں کو رکشوں اور ٹریکٹرز میں اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال لے کر گئے ۔ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کیلئے 21؍ گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ ریلوے نے حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثا کے لیے 15لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے، زخمیوں کو ان کے زخموں کی نوعیت کے حوالے سے کم سے کم 50ہزار اور زیادہ سے زیادہ 3لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔ تفصیلات کےمطابق گھوٹکی کے علاقے ڈہرکی کے قریب ریتی ریلوے اسٹیشن کے مقام پر کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس اور راولپنڈی سے کراچی جانے والی مسافر ٹرین سرسید ایکسپریس کے درمیان خوفناک تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 55؍ مسافر شہید جبکہ 150سے زائد زخمی ہوگئے ریلوے انتظامیہ کے مطابق حادثے کا شکار ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جارہی تھی حادثے کے بعد کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں حادثے میں تین بوگیاں مکمل تباہ ہوگئیں، ریلوے ذرائع کے مطابق ملت ایکسپریس میں مجموعی طور پر 703جبکہ سرسید ایکسپریس میں 505کے قریب مسافر سوار تھے ، بدنصیب مسافروں پر 3بجکر 38منٹ پر قیامت ٹوٹی جب وہ گہری نیند سو رہے تھے افسوسناک حادثے کے بعد چیخ وپکار مچ گئی، زخمیوں اور جاں بحق افراد کی میتوں کو اباڑو، ڈہرکی اور میرپورماتھیلو اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ جائے حادثہ پر بروقت امدادی کاروائی کے لیے مقامی افراد، پولیس، رینجرز اور پاک افوج کے جوان پہنچ گئے جبکہ ریسکیو کرنے کیلئے روہڑی سے ریسکیو ٹرین نے جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی کاموں میں حصہ لیا حادثہ کے بعد ضلع گھوٹکی کی اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے تاہم اسپتالوں میں سہولتیں نہ ہونے سے مسافروں کو علاج میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی زخمیوں کو شیخ زید اسپتال رحیم یا ر خان ریفر کیا گیا ہے۔ ڈی ایس ریلوے طارق لطیف کے مطابق حادثے میں اپ ٹریک کا 1100 فٹ اور ڈاؤن ٹریک کا 300 فٹ کا حصہ متاثر ہوا۔ بوگیوں کو ہیوی مشینری سے کاٹ کرپھنسے ہوئے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو نکالنے کا کام رات گئے تک جاری رہا۔ ادھر حادثہ کے بعد ریلوےٹر یک مکمل طور پر بند، ٹرینوں کو روھڑی، پنوعاقل، گھوٹکی، میرپورماتھیلو، صادق آباد، رحیم یار خان اور دیگر اسٹیشنوں پر روکا گیا ہے ریلوے حکام کے مطابق ٹریفک بحال کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ضلع گھوٹکی میں ریتی ریلوے اسٹیشن کے قریب مسافر ٹرینوں کے حادثے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر سکھر اور ایڈیشنل آئی جی کو ہدایت کی کہ وہ جائے حادثہ پر امدادی کاموں کو انجام دینے کے لئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو متحرک کریں۔ ریلوے ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے 4ملازمین بھی شامل ہیں جن میں 2پولیس اہلکار ہیں۔ ذرائع کا بتانا ہےکہ دونوں اہلکار سر سید ایکسپریس پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور انہوں نے خانیوال اسٹیشن سے ڈیوٹی جوائن کی۔حادثے کے بعد متعدد مسافروں کے ٹرین میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ہیوی مشینری منگوائی گئی۔ مقامی حکام کا بتانا ہےکہ رات گئے حادثے کی وجہ سے اندھیرے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی تاہم مقامی لوگ امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرین حادثےکے مقام پر امداد اور بچاؤ کی کوششیں جاری ہیں، فوج اور رینجرز کے دستے حادثے کے مقام پر امدادی کام انجام دے رہے ہیں جب کہ پنوں عاقل سے ایمبولینسوں کے ساتھ فوجی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس بھی پہنچ گئے ہیں۔ جیونیوز کے مطابق ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کے لیے 21 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔

تازہ ترین