• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم مان لیتے ہیں کہ معاشی محاذ پر حکومت کوکامیابی ملی یہ بہت اچھی اور خوش کن بات ہے۔ عوام کیلئے یہ تو بہت بڑی خوشخبری ہے۔ لیکن عوام کی طبیعت اتنی پھیکی ہو گئی کہ انہوں نے اس خوشخبری کو کوئی اہمیت دی نہ ہی اس حکومتی سچ کو تسلیم کیا۔ جب چینی100روپے کلو اور عوام کی قوت خرید سے باہر ہو تو وہ اس حکومتی میٹھی چیز سے کس طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔عوام نے اس حکومتی خبر کو اس لئے اہمیت نہیں دی کہ حسب سابق و حسب روایت وہ اس کو صرف حکومتی ہندسوں کا ہیر پھیر اور گورکھ دھندہ سمجھتے ہیں۔ جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا،بے شک حکومتی خزانے سے روپوں اور ڈالرز کا سیلاب باہر کو امڈ رہا ہے لیکن عوام اس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جیسے کہ بقول حکومت کے کچھ عرصہ پہلے کی معاشی بدحالی کے دور میں پس رہے تھے۔ جب عوام کو کسی قسم کی آسانی نہیں ملی، تو وہ کیونکر معیشت کی ترقی کی خبروں پر مسرت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اوپر سے حکومتی وزراء کا یہ کہنا کہ مہنگائی تو بڑھی ہے لیکن عوام کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ مہنگائی سے عام آدمی متاثر ہی نہیں ہے۔ یہ سب مخالفین کا حکومت مخالف پروپیگنڈہ ہے۔اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ اس بیان اور اس سے ملتے جلتے بیانات جیسا کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ بہت اچھا وقت آنے والا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور عام آدمی کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی نام نہاد نجومی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جناب میرے معاشی حالات بہت خراب ہیں یہ کب ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ نجومی نے کہا کہ آپ کے چند سال بہت مشکل ہیں۔ سائل نے پوچھا پھر ؟ نجومی نے کہا پھر تم ان حالات کے عادی ہو جائو گے اور پھر آپ کو محسوس نہیں ہو گا کہ آپ کے معاشی حالات خراب ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت بھی اسی فارمولے پر چلتے ہوئے عوام کو نہ گھبرانے جیسے مشورے دیتی ہے اور آئندہ پانچ سال مزید برسر اقتدار رہنے کی ’’نوید‘‘سناتی ہے۔ لیکن اس خوشخبری کا دوسرا رخ شاید حکومتی صلاح کاروں کی نظروں سے اوجھل ہے کہ جب معاشی اشاریے اوپر کی جانب جا رہے ہیں تو ان کا ثمر عوام تک پہنچنے سے کس نے روک رکھا ہے؟ عوام یہ کہنے میں تو حق بجانب ہیں کہ یا تو بقول وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد حسین چوہدری کے ’’فیک نیوز‘‘ ہے یا کوئی تو ہے جس نے معاشی خوشحالی کے پھل کو عوام تک پہنچنے سے روک رکھا اور ڈبوں میں بند کیا ہوا ہے۔ اس بارے میں ہم اپوزیشن کے بیانات کو حکومت مخالف پروپیگنڈہ سمجھ کر ان پر یقین نہیں کرتے لیکن زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی کیسے کریں۔ یہ راز اب تک راز ہی ہے کہ نئے وفاقی وزیر خزانہ جو عہدہ سنبھالنے سے ایک ہفتہ قبل تک حکومت کی معاشی ناکامیوں اور پالیسی کے بخیے ادھیڑ رہے تھے ۔وزیر خزانہ بننے کے بعد ایسی کونسی جادو کی چھڑی گھمائی کہ ایک مہینے میں ہی معیشت کی کایا پلٹ گئی۔ معیشت بھاگتی ہوئی بہتری اور کامیابی کی سیڑھی چلنے لگی۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ اگر وہ اس ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہے تو موجودہ وزیر خزانہ کے ساتھ سینٹ کے انتخاب میں وہ سلوک نہ کرے جو سابق مشیر خزانہ کے ساتھ کیا تھا بلکہ اس ’’فاتح معیشت‘‘ کو بغیر کسی حیل و حجت کے سینیٹر بنوا دے۔ یہی درخواست ’’ترین گروپ‘‘ سے بھی ہے۔ ورنہ قوم ان کو شاید معاف نہ کرے۔

آئینی تقاضے کے مطابق موجودہ وزیر خزانہ اکتوبر تک اس عہدہ پر برقرار رہ سکتے ہیں لیکن اس مدت کے بعد ان کے برقرار رہنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایم این اے تو نہیں بن سکتے لیکن سینیٹر منتخب ہونا لازمی ہے۔ دوسری صورت آرڈیننس کی بھی شاید ہو سکتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ چونکہ آئین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اسحاق ڈار نے ابھی تک بطور سینیٹر حلف نہیں اٹھایا ہے اس لئے ان کو آئین کے مطابق ڈی سیٹ کر کے ان کی سیٹ پر پنجاب سے وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنوا دے تاکہ وہ وزیر خزانہ کے منصب پر برقرار رہ سکیں۔ لیکن اس میں چند مشکلات درپیش ہیں اور یہ آسان کام نہیں ہے۔ ایک مشکل تو یہ ہے کہ حکومت بلوچستان کے گورنر کو تبدیل کر کے پی ٹی آئی کی شخصیت کو گورنر بلوچستان مقرر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اپنا گورنر لانا چاہتی ہے۔ ممکن ہے کہ بی اے پی بجٹ پاس کرانے میں اس امید پر حکومت کا ساتھ دے کہ ان کی نامزد شخصیت کو ہی گورنر بنایا جائے گا۔ اگرچہ یہ خیال است و خام است والی بات ہے۔ اور حکومت نے اس وجہ سے کہ بجٹ پاس کرواناہے اس معاملہ پر فی الحال چپ سادھ رکھی ہے۔ دوسری مشکل ترین گروپ کا بجٹ میں رویہ دیکھنا ہے کہ اگر وہ بجٹ پاس کرانے میں حکومت کا ساتھ دے تو پھر سینٹ سے شوکت ترین کو کامیابی دلانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ لیکن دونوں طرف کے بیانات اور ساتھ دینے کی باتیں غیر یقینی ہیں۔ کیونکہ جہانگیر ترین اور ان کا گروپ جانتے ہیں کہ بجٹ کے بعد حکومتی ارادے کیا ہو سکتے ہیں۔دونوں طرف بے یقینی ہے۔ البتہ بی اے پی کو امید ہے اور امید پر ہی دنیا قائم ہے اور بجٹ تک فریقین کا اتحاد بھی، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین