• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ برسوں میں جب بھی کوئٹہ جانے کا موقع ملا، میں نے شہر کے تاریخی بازار جناح روڈ کا ایک چکر ضرور لگایا۔ ہر بار، اس اجڑے ہوئے ماحول میں ایک کھوئے ہوئے ماضی کی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی۔ ایک خاص منظر ہے جس کی محض ایک تخیلاتی تصویر میرے ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہے۔ وہ یہ کہ کالج کی دو تین لڑکیاں، ہنستی کھیلتی اس سڑک پر چل رہی ہیں اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو سب سے حسین ہے اور جسے آنے والے زمانے میں میری بیوی بننا ہے۔جی ہاں۔ میری بیوی صادقہ نے اپنی نوجوانی کے ابتدائی سال کوئٹہ میں گزارے اور اس کی یادوں میں جو کوئٹہ زندہ ہے وہ اب موجود نہیں۔ جن دوکانوں اور ریستورانوں کا وہ ذکر کرتی ہے ان کی نشانیاں بھی مجھے نہیں ملیں۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہمارے شہر ترقی اور خوشحالی کے شگوفوں سے مہکنے کے بجائے، سماجی اور تہذیبی معنوں میں مرجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور انتشار کے سائے میں صرف انحطاط کو فروغ حاصل ہے۔کراچی کی بھی تو یہی کہانی ہے۔ میں جب بھی اپنی نوجوانی کے دن یاد کرتا ہوں تو کئی حسرتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جب کراچی کی آبادی ،موجودہ آبادی سے کئی گنا کم تھی اور اس شہر میں ایک سو سے زیادہ سینما گھر تھے۔ لیکن یہ جو میں نے کوئٹہ کا ذکر کیا ہے تواس کا حوالہ کسی شہر سے نہیں بلکہ پورے ملک پر نازل ہونے والی آفت ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بلوچستان اور اس کے صدر مقام کے دکھ کسی حدتک مختلف ہیں۔
اس بار، جون کے اس آخری ہفتے میں کوئٹہ جانے کا سبب وہ دل دہلانے اور ذہن کو جھنجوڑنے والے واقعات تھے جو 15جون کو زیارت اور کوئٹہ میں رونما ہوئے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ ان واقعات کو ہم نئی صوبائی حکومت کا خیر مقدم بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ حکومت بلوچستان کی تاریخ کا ایک نیا اور بنیادی طور پر ایک انتہائی خوش آئند باب ہے۔ کس نے یہ سوچا تھا کہ بلوچستان کی حکومت کی سربراہی کسی سردار کے بجائے ،عوام کی صفوں سے نکلنے والے ایک باشعور سیاسی کارکن کے حصے میں آئے گی۔ یہ وزیر اعظم نواز شریف کی بالغ نظر ی کی ایک قابل تعریف مثال ہے۔ بہرحال،ابھی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے اپنے قدم بھی نہ جمائے تھے کہ دہشت گردی،تخریب کاری اور خون خرابے کی ایک لہر نے بلوچستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے، اسے جاننے کے لئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن ترتیب دیا۔ اس کی سربراہی عاصمہ جہانگیر نے کی کہ جو پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی پہچان ہیں۔ ان کے علاوہ ،اس مشن کے جو پانچ دوسرے ممبران تھے ان میں سے ایک میں تھا، مشن نے کوئٹہ اور زیارت کا دورہ کیا ۔ جائے واردات پر متعلقہ افراد اور حکام سے ملاقات کی۔ صوبے کی اہم شخصیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے سنجیدہ گفتگو کی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نقطہ نظر کو جانا اور اپنی توفیق کے مطابق گہری سوچ وبچار کے کرب کو سہا۔ تین دن اتنے مصروف گزرے کہ صرف پروگرام کی تفصیل ہی کافی جگہ گھیر لے گی۔پھر یہ بھی میرے لئے مناسب نہیں کہ میں مشن کی کارروائی کا کوئی باضابطہ خاکہ پیش کروں، مشن کے ابتدائی تاثرات عاصمہ جہانگیر نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بیان کئے ہیں۔ تفصیلی رپورٹ کا لکھا جانا اور اس کا شائع ہونا ابھی باقی ہے۔
ہم کوئٹہ میں تھے جب نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر آئی جس میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس نوعیت کے سانحے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا پورا ملک ہل گیا۔ لیکن دہشت گرد ہمیں یہ موقع بھی نہیں دیتے کہ ہم کسی ایک بہیمانہ اور انسانیت سوز واقعہ کو اپنے احساس میں جذب ہو جانے دیں اور اس کی اہمیت اور معنویت کو سمجھنے کی کوشش بھی کر سکیں۔ ایک دن بھی نہیں گزرتا کہ کوئی دوسرا المناک واقعہ ہمارے ہوش و حواس گم کر دیتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ دھماکے انمول انسانی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں، اب تو یہ لگتا ہے کہ ہمارے اعصاب شل ہو چکے ہیں اور ہم سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے ہم اجتماعی طور پر کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں۔ ایک سکتے کا سا عالم ہے اور لگتا ہے کہ ہمارے حکمران اورہماری افواج بھی اس کے سحر میں ،کسی فیصلہ کن ردعمل سے قاصر ہیں۔ مثلاً صرف ایک ہفتے میں دو واقعات ہوئے ہیں انہوں نے زیارت اور کوئٹہ کے المیوں کو تقریباً پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اس لئے تو ہمیں کوئٹہ میں، خواتین کی یونیورسٹی میں بس کے دھماکے اور اس کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں ہونے والی حیرت انگیز دہشت گردی کو غور سے دیکھنے کی مہلت نہیں ملتی۔ 15طالبات کی ہلاکت اس طرح پہلے تو کبھی نہیں ہوئی۔ گویا کوئٹہ میں اس سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے اور جس میں ہزارہ برادری پر قیامت خیز حملے بھی شامل ہیں اس سے آگے جانا بھی ممکن ہوا۔ بربریت کی ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے اور ہم بے بسی اور بے حسی کے عالم میں، دم بخود اسے دیکھ رہے ہیں۔
میں نے سوچا تھا کہ میں کوئٹہ اور زیارت کے اپنے دورے کا ایک تاثراتی خلاصہ پیش کروں گا۔ بلوچستان کی اپنی جو کہانی ہے اور جو ملک کے دوسرے علاقوں سے مختلف ہے اس کا بھی حوالہ دوں گا لیکن اب جو میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو اس دشوار اور پیچیدہ موضوع کا کوئی سرا قابو میں نہیں آ رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اتنا کچھ دیکھا، سنا اور سوچا ۔ کم از کم میرے لئے یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ فوجی اسپتال میں ان تین زخمی طالبات سے بات کی جو اس بس میں موجود تھیں جس میں دھماکہ ہوا۔ تب میں نے اس منظر کا خاکہ اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی ۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ،ڈاکٹر سلطانہ بلوچ نے جو باتیں کیں ان کا ایک الگ تاثر تھا۔ انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے کھل کر باتیں کیں اور میں نے محسوس کیا کہ ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ لوگ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک تصویر کے کئی رخ آپ کو الجھن میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ یہ سوال کہ کیا اب بلوچ علیحدگی پسندوں، لشکر جھنگوی اور طالبان کے درمیان کوئی رابطہ قائم ہوا تو اس کا جواب کہیں ہاں میں تھا اور کہیں نہیں میں۔ کسی ایک ملاقات کے بعد یہ امید پیدا ہوئی کہ اب نئی حکومت کے قیام کے بعد ،حالات کے بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے تو دوسری ملاقات سے یہ پیغام ملتا کہ حالات اب کسی کے قابو میں نہیں ہیں۔ کئی معنوں میں صورت حال بدل رہی ہے گو اس کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے۔ بلوچستان کے مسائل کی وسعت کسی ایک کالم کی تنگی میں کیسے سمائے گی ۔پاکستان کے دوسرے علاقوں کے لوگ ان مسائل سے کم واقف ہیں۔صرف لاپتہ افرادکی داستان ہی اتنی طویل ہے۔ مسخ شدہ لاشوں سے کسی کا کیا تعلق ہے اور ان سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ بلوچستان کی پشتون آبادی بھی توجہ طلب ہے۔ ہم زیارت گئے تو بے آباد لیکن ایک سنگلاخ خوبصورتی سے معمور پہاڑی راستے میں کہیں کہیں سیب، چیری، خوبانی اور آلوچے کے باغات کے علاوہ وہیں کہیں طالبان کی موجودگی کا احساس بھی موجود تھا ۔ زیارت میں جلی ہوئی ریزیڈینسی کے سامنے ،ایک بوڑھے چنار کے سائے میں بیٹھ کر یہ سوچتا رہا کہ یہ سارا منظر کتنا دل فضا، پرسکون اور خاموش ہے۔ ایسی کسی جگہ بیٹھ کر آپ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ دنیا کے دکھ کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور آپ بالکل محفوظ ہیں۔ لیکن آپ کے سامنے تاریخ کا ایک ورثہ منہدم ہے اور چنار کی اس جانب کی شاخیں جھلسی ہوئی ہیں۔ اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کا سرکاری عزم واضح ہے مگر جو زندگیاں دہشت گردی کی آگ میں خاکستر ہو گئیں وہ کسی صورت بازیاب نہیں کی جا سکتیں اگلے دن، کوئٹہ کی کچہری میں، وکیلوں سے ملاقات کے دوران، ایک وکیل میرے پاس آئے اور مجھے الگ لے جا کر ایک شکایت کی وہ خود پشتون تھے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ،بم دھماکے میں، اتنی بلوچ لڑکیاں ہلاک ہو گئیں اور کہیں کسی نے، کراچی یا لاہور یا اسلام آباد میں ان کی یاد میں شمعیں روشن نہیں کیں۔ کیا پاکستان میں کبھی کوئی ایسی دہشت گردی ہوئی ہے، میں نے دیکھا وہ بہت آزردہ تھے۔ میں چپ کھڑا رہا۔ انہوں نے مزید کہا ”اگر یہ سانحہ پنجاب میں ہوتا …“ اور میں تب بھی کچھ نہ کہہ سکا۔
تازہ ترین