• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم شہباز صاحب
خادم پنجاب! سلام مسنون
بہت عرصے سے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ جملہ ان حضرات کی یہ خوش فہمی دور کرنے کے لئے بھی لکھ رہا ہوں جنہیں یقین کامل ہے کہ آپ یا میں روزانہ ایک دوسرے کی طرف آتے ہیں اور گھنٹوں گپ شپ کرتے ہیں! بہرحال میں نے ضروری سمجھا کہ خط کے ذریعے یہ خوش فہمی دورکرنے کے علاوہ آپ سے کم از کم آدھی ملاقات تو کرلی جائے!
اور سنائیں کیا حال ہے؟ ان دنوں آپ کیا کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ تو کرہی رہے ہوں گے۔ میں بے خبر اس لئے ہوں کہ پرسوں برطانیہ کے دوہفتے کے ”تبلیغی“ دورے سے لوٹاہوں ۔ وہاں میں نے اخبار اورٹی وی کا مستقل بائیکاٹ کیاہوا تھا تاکہ میرے ”گیان دھیان“ میں کوئی خلل واقع نہ ہو مگر پرسوں سے ایک بار پھر ”مکروہات ِ دنیا“ نے گھیرے میں لے رکھاہے اور میں نے ان چیزوں میں دوبار ہ دلچسپی لیناشروع کردی ہے جو ذہنی انتشار کا باعث بنتی ہیں تاہم آج ایک اچھی خبر آپ کے حوالے سے پڑھی جو یقینا شعیب بن عزیزکے ذہن رسا کے ذریعے اخباروں تک پہنچی ہوگی اور خبر، جو آپ کے کارناموں کے حوالے سے بظاہر اتنی اہم نہیں۔ یہ تھی کہ آپ نے روسی وفد سے روسی زبان میں گفتگو شروع کی تو وہ حیران رہ گئے۔حیران تو بیچارہ ناصر شیخ بھی ہوا تھا جو گزشتہ برس ہابرس سے جرمنی میں مقیم ہے جب میرے گھر میں اس نے آپ کی جرمن زبان پر دسترس جاننے کیلئے آپ سے جرمن میں گفتگو آغاز کی تو آپ نے اسے بتایا تھا کہ جو جملے تم نے ادا کئے ہیں یہ ”سیلنگ“ کے زمرے میںآ تے ہیں فصیح جرمن نہیں ہے۔ جدہ میں، میں نے آپ کو ایک عرب سے عربی میں گفتگو کرتے بھی دیکھا تھا تاہم اس وقت میں نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ خود مجھے بھی عربی پرعبور حاصل ہے ورنہ میں موقع پر ہی آپ کو سورة اخلاص اور چھ کلمے سنا کرحیران کردیتا۔بہرحال یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ فی الحال اس خط کا مقصد آپ کو چند مشوروں سے مستفید کرانا ہے اور آپ جانتے ہیں میں یہ کام فی سبیل اللہ کرتاہوں۔ ایک دفعہ شیطانی وسوسے کے تحت میں نے اپنے مشوروں کی فیس ایک ٹی وی اینکر سے طلب کی تو اس نے الٹا ایک بل میرے سامنے رکھ دیا جس کے مطابق میں نے اپنے مشوروں سے اس کا جتنا وقت ضائع کیا اتنے وقت میں وہ کسی پیڈ پروگرام سے لاکھوں روپے کما سکتا تھا ۔ بہرحال مشورے پیش خدمت ہیں۔آپ کو پسند آئیں تو ان پرعمل کریں اور اگر پسند نہ آئیں تو بھی خیر ہے کیونکہ فی سبیل اللہ کاموں میں نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا۔
پہلا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی فطری دردمندی کے تحت پنجاب کے پسماندہ طبقوں کیلئے جو کام کریں تو انہیں فائیوسٹار سہولتیں دینے کی خواہش پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ کم از کم اس وقت تک جب تک ترقی یافتہ اقوام بھی اپنے عوام الناس کو یہ سہولتیں دینے کی پوزیشن میں نہ آجائیں۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک عام آدمی کا مسئلہ صرف دوتین کمروں کا ایک چھوٹا سا گھرہے۔ اسے اس کاکرایہ کم از کم سات سے دس ہزار روپے ماہوار تک دینا پڑتا ہے اور بیس پچیس ہزار سکیورٹی اس کے علاوہ ہے۔ چنانچہ اگر آپ اس کا یہ مسئلہ حل کردیں تو وہ مہنگائی کاروناکبھی نہیں روئے گا تاہم یہ چھت انہیں کئی منزلہ فلیٹوں کی صورت میں ملنا چاہئے۔ ان کیلئے علیحدہ گھر کی سہولت فی الحال بھول جائیں۔ ان سے پیشگی رقم بھی وصول نہ کی جائے کہ جس طبقے کے لئے آپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس تین چار لاکھ روپے ایڈوانس دینے کے لئے نہیں ہیں۔ان سے صرف آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ وصول کئے جائیں اورواضح رہے کہ ہماری 70 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اوروہاں ہرشخص کے پاس اپنی چھت ہے۔ اسی طرح چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی شاید چند لوگ ہوں گے جوکرائے کے گھر میں رہتے ہوں گے باقیوں کے پاس اپنے آبائی مکان موجود ہیں سو یہ مسئلہ صرف چند بڑے شہروں اور ان میں بطورخاص لاہور کاہے جہاں دوسرے شہروں کے لوگ بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں۔ اگر آپ اس بڑے کام کی ابتدا لاہورسے کرتے ہیں اور بیس پچیس لاکھ فلیٹ تعمیر کرنے اور ان میں بے گھر لوگوں کو بسانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آپ کا یہ کام آپ کو صدیوں تک زندہ رکھے گا۔ ترکی کے دورے میں آپ نے یہ فلیٹ دیکھے بھی تھے مجھے یاد ہے کہ اس دورے میں، میں آپ کیساتھ تھا۔
دوسرامشورہ تعلیم کے پھیلاؤ کے حوالے سے ہے۔ پنجاب میں بے شمار سکول ایسے ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور جہاں ہزاروں بچے کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ کے تعمیر کردہ دانش سکول بلاشبہ غریبوں کے بچوں کے لئے ایک نعمت غیرمترقبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں اور ان کے والدین کی دعاؤں سے آپ کو نوازتا رہے گا مگر میرامشورہ ہے کہ اب آپ مزیددانش سکول نہ بنائیں بلکہ ان پرخرچ ہونے والی رقم ان سکولوں کی تعمیر نو پر خرچ کریں جو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے خواہ بہترین سہولتیں حاصل نہ کرسکیں مگر وہ تعلیم کے پھیلاؤ کا باعث ضروری بنیں! تعلیم ہی کے حوالے سے ایک مشورہ یہ ہے کہ آپ امتحانوں میں پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں اپنے ہاں کھانے پر بلائیں، انہیں شاباش دیں، سرٹیفکیٹ دیں لیکن انہیں یورپ کی سیر پر نہ بھیجیں۔ وہ وہاں سے صرف فرسٹریٹ ہو کر آتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ واپسی پر ان کے دل پاکستان کی محبت اور اس کے لئے کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہوں گے تو شاید ایسا نہ ہو ۔ لاکھوں پاکستانی ہر سال یورپ جاتے ہیں اور واپسی پر وہ ویسے کے ویسے ہی ہوتے ہیں بلکہ اس کے بعد ان میں سے اکثر کا دل پاکستان میں نہیں لگتا او روہ یورپ اور امریکہ کی امیگریشن کے لئے پاگل ہوئے ہوتے ہیں۔ براہ کرم لائق بچوں کے غیرملکی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم بھی ان ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کریں جن ضرورتوں کی وجہ سے سرکاری سکول کسمپرسی کا شکارہیں!
ایک مشورہ سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے بھی عرض کرنا چاہتاہوں۔ ان کی اکثریت انتہائی برے حالات کی زد میں ہے۔ ایک ایک بسترپر دو دو مریض لیٹے ہوتے ہیں۔ انتہائی ضروری آلات کی کمیابی ہے۔ کئی ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹرز اپنے کمروں ہی میں بیٹھے نظرآتے ہیں۔ یہ میں شہر لاہور کی بات کر رہاہوں۔ لاہور سے باہر نکلیں تو ہسپتالوں کی حالت اتنی پتلی ہے کہ دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ اسے ہسپتال کہاجائے یا مقتل قرار دیا جائے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے ہاں ایک سے ایک مخیر صاحب ِ دل موجود ۔ہے میں جانتا ہوں خزانہ خالی ہے اور جو تجویز میں دے رہاہوں اس کے لئے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے۔ آپ اشارہ کریں گے تو یہ اہل دل بہت کچھ آپ کے قدموں میں ڈالیں گے!
کچھ مشورے بیوروکریسی کے حوالے سے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کو میری بات اچھی نہیں لگے گی لیکن چونکہ میںآ پ کو ایک بہترین انسان اور بہترین چیف منسٹر سمجھنے کے علاوہ آپ سے ذاتی طور پر بھی محبت کرتاہوں۔اس لئے آپ کی بہتری کے لئے آپ کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر عرض کرنے کی ضرورت محسوس کرتاہوں کہ آپ کلیدی اسامیوں پر پوسٹنگ کے وقت سینیارٹی کاخیال ضرور رکھیں۔ آپ کو جو شخص پسند آ جاتا ہے آپ اس کی محبت میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ ”خرابی“ خود مجھ میں بھی ہے چنانچہ آپ کے اور میاں نواز شریف کے حوالے سے مجھے خاصے طعنے سننا پڑتے ہیں مگر میں یہ کام میرٹ پر کرتاہوں چنانچہ مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں جبکہ آپ جب کسی سینئر پر کسی جونیئر کو لابٹھاتے ہیں تو بیوروکریسی میں اس سے بہت بے چینی پھیلتی ہے اور یوں وہ لوگ جن کی حق تلفی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنے کا م میں اتنی دلچسپی نہیں لیتے جتنی انہیں لینا چاہئے اور یوں عوامی شکایات میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے آپ کی انتظامی صلاحیتوں پر حرف آتا ہے۔ دوسری طرف ”لاڈلے“ بھی فرعون بن بیٹھتے ہیں اور ”سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا“ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی پوزیشنیں برقرار رکھنے کیلئے بہتر لوگوں کو بھی آپ کے پاس نہیں پھٹکنے دیتے اورنہ ان میں ٓآپ سے اختلاف کی جرأت ہوتی ہے۔ یہ آپ کے سامنے روبوٹ بن جاتے ہیں اور خلق خدا کو روبوٹ بنا لیتے ہیں۔ یہ ایک سجدہ آپ کو کرتے ہیں باقیوں سے سجدے کرواتے رہتے ہیں۔ Please cut them to there size اورہاں جس کسی افسریا کسی بھی شخص کے بارے میںآ پ کے دل میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو یا پیدا کی جائے اس پر پختہ ہونے کی بجائے ایک بار اس کی بات ضرور سن لیں۔ ممکن ہے صورتحال وہ نہ ہو جو آپ کو بتائی گئی ہو!
اور آخری مشورہ یہ کہ حمزہ شہباز کے علاوہ سلمان شہباز سے زیادہ سے زیادہ کام لیں۔ یہ نوجوان بہت ہونہار ہے۔ یہ آپ کا نام روشن کرے گا!
والسلام…مخلص … عطا الحق قاسمی
تازہ ترین