• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تصوف اور عشق کا تعلق یہ ہے کہ صوفی دل کی نگاہوں سے دیکھتا ہے،ذہن سے محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس دنیا کو ظاہری اور باطنی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہےکیونکہ دنیا یا کائنات دو حصوں میں منقسم ہے، جو نظر آتی ہے وہ طبیعیاتی دنیا ہے اور جو نظر نہیں آتی وہ مابعدالطبیعاتی۔ ہمارا وجود بھی اسی کی ایک مثال ہے جسم نظر آتا ہے لیکن روح نظر نہیں آتی جب کہ جسم اسی نظر نہ آنے والی روح کی وجہ سے قائم دائم ہے جو اپنی موجودگی کا ہر لمحہ احساس دلاتی ہے۔ تصوف یک طرفہ سڑک کا نام نہیں جس میں صرف روح کی طرف جانا ممکن ہے۔نہ ہی دنیا سے بیزار ہو کر ہر وقت مدہوشی کے کوڑے میں پڑے رہنے والے لوگ صوفی ہوتے ہیں ۔تصوف ہوش کی اعلیٰ سطح پر فائز ہو کر جیون کرنے کا سلیقہ ہے۔صوفی آدم بیزار نہیں ہوتا نہ محبوب حقیقی کے لئے بندوں سے منہ موڑتا ہے بلکہ انسانوں کی خوشنودی کی وساطت سے خدا تک پہنچتا ہے اور انسانوں کی خدمت کسی نفع کے لئے نہیں کرتا بلکہ اسے ان میں دکھائی دینے والی خالق کی جھلک ان کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ریاضت کے ذریعے باطن کی ولایت سے سرشار ہو کر لوگوں کی طرف پلٹتا ہے اور ان کے درمیان موجود رہتا ہے، ان کی باطنی طہارت کرتا ہے،ان کی سوچ کا زاویہ درست کرتا ہے،انھیں محدود سوچ کی کوٹھری سے نکال کر کائنات کے وسیع صحن میں لے آتا ہےجہاں چیزیں ازخود واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تصوف ذات حق سے جڑت کے علاوہ انسانی قدروں کا پرچار اور انسانیت کے درس پر مبنی ہے، دنیا کے انسان ایک کنبہ بن جاتے ہیں۔تصوف کا کسی بھی مذہب سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔ہر مذہب اور معاشرہ کچھ آفاقی قدروں پر متفق ہے، تصوف انہی پر اپنی بنیادیں استوار کرتا ہے۔ تصوف ایک دن کے درس یا ریاضت کا نام نہیں۔صوفی کو گیان کی آخری سیڑھی تک پہنچنے کے لئے عقل اور علم کی کئی منزلیں سر کرنی ہوتی ہیں۔ ایک لمبے پل صراط سے گزرنے کے بعد اس پر وجدانی حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔تصوف کے رستے کا مسافر اگر عملی طور پر ان راستوں سے نہیں گزرتا تو وہ تصوف کے علم کا اچھا حافظ اور مقرر تو ہو سکتا ہے مگر سالک نہیں۔ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح تقسیم شدہ زندگی گزارتا ہے،کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔اس وقت پوری دنیا تاریخ کی شدید ترین تقسیم کا شکار ہے۔ظاہری علم کے کھوکھلے حصار نے اسے غیر محفوظ اور کمزور کردیا ہے۔بنیادی طور پر علم کی تین ابتدائی اقسام عقلی،وجدانی اور وحی ہیں۔ اسی اعتبار سے انسانوں کے طبقے متعین کئے جاسکتے ہیں۔بطور انسان ان کا اعزاز ایک سا ہے مگر علم اور گیان کی منزل ان کے رتبے کا تعین کرتی ہے۔جیسے علم کی ان تین اقسام کے مطابق فرد،صوفی اور نبی کے درجے ہیں۔فرد خارجی یاظاہری زندگی کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تجربے،مشاہدے اور دلیل کو عمل میں لاتے ہوئے عقلی علم حاصل کرتا ہے۔ وہ عمر بھر نفع نقصان کے پلڑوں میں جھولتا رہتا ہے کیونکہ آسائش بھری زندگی اس کا مقصد ہے۔صوفی باطن کا مسافر ہے جہاں دل کی رہنمائی مقدم ہے، اس لئے وہ وجدان کو وسیلہ بنا کر ذات و کائنات کی الجھنیں سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔صوفی چھلانگ مار کر وجدان کی سیڑھی پر نہیں جاتا بلکہ وہ عقلی علم بھی حاصل کرتا ہے یوں وجدانی علم میں عقلی علم شامل ہوتا ہے۔لیکن عقلی علم میں وجدانی علم شامل نہیں ہوتا۔سالک ظاہر اور باطن کے دونوں وسیلوں سے مستفید ہوتا ہے جبکہ فرد صرف ظاہر تک محدود ہے حالاں کہ اس کے پاس شعور اور آگہی ہوتی ہے وہ باطن کی کھڑکی کھولنے کی جرأت کر لے تو زندگی کی اصل حقیقت اجاگر ہو جائے۔بطور انسان ہر فرد کو عقلی اور وجدانی علم کا شعور ہونا ضروری ہے۔عقلی علم دنیا میں مادی ترقی کا ضامن ہے اس لئے اس کی بھی اہمیت مسلم ہے لیکن وجدانی علم دل اور روح کی حقیقت تک پہنچنے اور ان کی رہنمائی میں ذات کو سنوار کر آفاقی معاشرے کے قیام کی طرف سفر ہے۔صوفی کا علم ذاتی کاوش کا حامل ہوتا ہے جہاں کلاس روم،قلم، کتاب اور درس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ہر شخص صوفی نہیں ہوسکتا۔تصوف کی منزل کسی ڈگری کا نام نہیں یہ عطا ہے۔صوفی خدا کے چنیدہ بندے ہوتے ہیںجن کو پیدائشی طور پر باطنی علوم سے بہرہ ور کر کے بھیجا جاتا ہے۔ایک خاص ریاضت کے بعد اس کا نظام متحرک کردیا جاتا ہے۔ اس کا کام لوگوں کو باطنی آگہی کے ذریعے ذات واحد کی وساطت انسانیت سے جوڑنا اور آفاقی قدروں کی ترویج کرنا ہے۔اس لئے مادیت کے پیچھے بھاگتی دنیا کو اخلاقی دائرے میں لانے کیلئے تصوف کے مکتب فکر کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ صوفیوں کے اخذ کردہ نتائج کتب کی صورت موجود ہیں۔ہر شخص ان کا مطالعہ کر کے ان کی تفہیم تک نہیں پہنچ سکتا۔فہم اور وجدان کی یکساں سطح کے دریا ہر دور میں بہتے رہتے ہیں ان کو تلاش کرنا اور سیرابی حاصل کرنا انسان کی استطاعت پر ہے۔ تاہم نصاب میں تصوف کے انسانیت پر مبنی اسباق کو شامل کر کے پاکستان کی نئی نسل کو تقسیم اور ٹوٹنے پھوٹنے کے عمل سے بچایا جا سکتا ہے۔ تصوف خیر کا وہ رستہ ہے جس پر دنیا کا ہر فرد سفر کر سکتا ہے یہاں رنگ ونسل اور علاقائی حدبندی نہیں۔اس لئے نفسِ انسانی میں موجود شر انگیز لاوے کے خاتمے اور خیر کے ماخذات کی آبیاری کیلئے تصوف کے انسانیت پسند نظام کا مطالعہ اور تحقیق ضروری ہےجو یقیناً امن، محبت، رواداری اور برداشت پر مبنی ہوگا۔ صرف اسی صورت فتوے لگانے اور دوسروں کو جھٹلانے کی رسم دم توڑے گی۔

تازہ ترین