• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ادارہ ٔصحت کی جانب سے دوست ملک چین کے تعاون سے کورونا ویکسین مقامی طور پر تیار کئے جانے کی خبر خوش آئند ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی تیار کردہ ویکسین کو ’’پاک ویک‘‘کا نام دیا گیا ہے جو چینی ماہرین کی زیر نگرانی چینی خام مال سے تیار کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں اب تک دو لاکھ سے زیادہ ویکسین کی ڈوزز تیار کی جاچکی ہیں اور اس سلسلے میں چین کی دوا ساز کمپنی ’’کین سائنو‘‘ مزید 10 لاکھ ڈوزز کا خام مال فراہم کرچکی ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک تقریب میں ’’پاک ویک‘‘ کی مقامی سطح پر تیاری کی خوشخبری سنائی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ گویا پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے کورونا ویکسین دریافت کرلی ہے جبکہ حقیقتاً چینی کمپنی ’’کین سائنو‘‘ پاک ویک کا خام مال گاڑھے سیال کی شکل میں پاکستان کو فراہم کرے گی جسے انجکشن کی شکل میں پاکستان میں پیک کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ بھارت سمیت یورپ اور امریکہ میں کورونا ویکسین نہ صرف بڑے پیمانے پر تیار کی جارہی ہے بلکہ بیرون ملک ایکسپورٹ بھی کی جارہی ہے۔

’’پاک ویک‘‘ کی مقامی سطح پر تیاری سے قبل پاکستان کو عالمی مارکیٹ سے ویکسین کی خریداری میں دشواری کا سامنا تھا جس کے باعث ملک میں ویکسی نیشن مہم سست روی کا شکار ہے۔ بلومبرگ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں کورونا ویکسی نیشن کی رفتار کو سست ترین قرار دیتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ اگر پاکستان میں ویکسین لگانے کی حالیہ رفتار اسی طرح برقرار رہی تو 75 فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کیلئے اگلے 10 برس درکار ہوں گے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی بلومبرگ کی اِس رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسی نیشن کی مہم اسی طرح سست روی سے جاری رہی تو مجموعی آبادی کی ویکسی نیشن میں 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ویکسی نیشن کی شرح ایک فیصد،بھارت میں9 فیصد، تھائی لینڈ میں52 فیصد، نیپال میں47 فیصد، ترکی میں 63 فیصد اور افریقی یونین میں یہ شرح 40فیصد ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ترکی، برازیل، فرانس، جرمنی اور اٹلی کو اپنی پوری آبادی کو کورونا ویکسی نیشن لگانے میں مزید ایک سال درکار ہو گا جبکہ برطانیہ، امریکہ، اسرائیل اور چلی سمیت دیگر ممالک ایک سال سے بھی کم عرصے میں اپنی آبادی کے 75 فیصد حصے کو کورونا ویکسی نیشن لگاسکیں گے۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ویکسی نیشن مہم میں تیزی لائے بصورت دیگر آنے والے وقت میں اس کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان میں ویکسی نیشن مہم کی سست روی کی اہم وجہ ویکسین کی عدم دستیابی اور ہماری ویکسی نیشن مہم کا تمام تر دارومدار چین اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے عطیات میں ملنے والی ویکسین پر رہا۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اب تک کورونا سے بچائو کی 80 لاکھ سے زیادہ خوراکیں لگائی جاچکی ہیں جو میرے خیال میں 22 کروڑ کی ملکی آبادی کو دیکھتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اس سال بجٹ میں کورونا ویکسین کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے ہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ یومیہ 2لاکھ ویکسی نیشن کا ہدف پورا کیا جائے گا۔ اگر حکومتی دعوے کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پوری آبادی کی ویکسی نیشن میں 3سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔پاکستان میں کورونا ویکسی نیشن کی سست روی کی ایک وجہ ویکسین کے بارے میں پھیلائی گئی اس طرح کی افواہیں بھی ہیں کہ ویکسین لگانے سے خواتین کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی سرگرم ہے کہ کورونا ویکسین لگانے والے افراد آئندہ دو سال تک اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے جبکہ کچھ مذہبی اسکالرز بھی ویکسین مہم کے خلاف ہیں۔ افسوس کہ حکومت ویکسین کے بارے میں پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈے پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ ایک طرف جہاں ویکسی نیشن کا عمل تیز کیا جائے، وہاں افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف سخت قوانین بھی بنائے جائیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے ملازمین کی تنخواہ کا حصول ویکسی نیشن سے مشروط کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر بھی ملازمین کی تنخواہیں ویکسی نیشن سے مشروط کرے۔

چین نے ہمیشہ برے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ ایسے مشکل وقت میں جب پاکستان کو یورپ اور امریکہ کی دوا ساز کمپنیوں سے کورونا ویکسین کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا تھا جس سے ملک میں ویکسی نیشن مہم سست روی کا شکار تھی، چین نے پاکستان کو کورونا کی جنگ سے نبردآزما ہونے کیلئے ویکسین جیسا بڑا ہتھیار فراہم کرکے ایک بار پھر دوستی نبھائی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ غیر ملکی ویکسین کی 2ڈوزز کے مقابلے میں ’’پاک ویک‘‘ کا کورس صرف ایک ڈوز پر مشتمل ہے جس کی مقامی سطح پر پیکیجنگ سے امپورٹڈ ویکسین پر ہمارا انحصار بڑی حد تک کم ہو جائے گا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کا ہدف ماہانہ 30 لاکھ ڈوز زتیار کرنا ہے۔ ایسے میں جب مقامی طور پر تیار کردہ ’’پاک ویک‘‘ ملک میں دستیاب ہے، ویکسی نیشن مہم میں تیزی لائی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آنے والے وقت میں ’’پاک ویک‘‘ ویکسین کا خام مال بھی پاکستان میں تیار کیا جائے۔

تازہ ترین