• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر میں 26جون کو ایذا رسانی یعنی ٹارچر کے خلاف جدوجہد کا دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان نے جون 2010ء میں ایذا رسانی اور ظالمانہ، اہانت آمیز سلوک یا سزاؤں کے خلاف اقوام متحدہ کے عالمی معاہدے (UNCAT) کی توثیق کی تھی۔ اس معاہدہ کے مطابق سرکاری حیثیت میں کام کرنے والے کسی بھی شخص یا اس کے ایماء پر کسی شہری کوجان بوجھ کر دھمکانے، تکلیف پہنچانے جسمانی یا ذہنی اذیت دینے کو ایذا رسانی یا ٹارچر قرار دیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں ایذا رسانی اور تشدد میں واضح فرق کیا گیا ہے۔ٹارچر کی تعریف میں تشدد کرنے والے کا سرکاری حیثیت کا حامل ہونا اور ریاستی اختیارات کو استعمال کرنا ضروری جزو ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر ایک پولیس اہلکار تھانے میں اپنے بیٹے کو تھپڑ مارے تو وہ ٹارچر شمار کیا جائے گا لیکن اگر وہی شخص اسی روز اپنے گھر پر اسی بچے کو تھپڑ مارے تو اسے ٹارچر نہیں بلکہ تشدد گردانا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھانے میں اس شخص کی حیثیت سرکاری اہلکار کی تھی اور اسے اس حیثیت میں ریاستی اختیار سونپا گیا تھا جبکہ اپنے گھرمیں وہ سرکاری منصب کی بجائے محض ایک شہری کے طور پر اپنے افعال کا ذمہ دار ہے۔انسانی اجتماع کے اصول نہایت سادہ ہیں۔ جو معاشرہ کسی بھی جواز کی آڑ میں تشدد کو روا رکھتا ہے، بھلے وہ عورتوں کے خلاف ہو یا بچوں کے خلاف یا پھر برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لئے تشدد کو تقدیس کا جامہ پہناتا ہو، ایسا معاشرہ ایذا رسانی یا ٹارچر سے نہیں نمٹ سکتا۔ اسی طرح جو ریاست ٹارچر سے چشم پوشی کرتی ہے، وہ معاشرے سے تشدد ختم نہیں کر سکتی۔ جو معاشرہ انسانی آزادیوں کو جرم قرار دیتا ہو، وہاں انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ ٹارچر کا شکار ہونے والے فرد کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں، ٹارچر سے ریاست اور معاشرے میں باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ انصاف کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ انسانی احترام مجروح ہوتا ہے اور انسانی امکان کے آفاق محدود ہوتے ہیں۔
انسانی معاشرے میں ریاست واحد ادارہ ہے جسے شہری اپنی رضا مندی سے قوت نافذہ کا اختیار دیتے ہیں۔ اس اختیار کا مقصد یہ ہے کہ اگر عدالت قانون کی روشنی میں کسی شخص کو سزا دیتی ہے تو اس سزا پر عمل کیا جائے۔ نیز یہ کہ شہریوں کو دوسرے شہریوں اور گروہوں کے ہاتھوں ناانصافی یا تشدّد سے محفوظ رکھا جائے۔ گویا ریاست کو تشدد کا یہ اختیار شہریوں کے تحفظ کے لئے دیا گیا ہے لیکن اگر ریاستی ادارے یا ان کے اہلکار اس اختیار کو کسی غیر قانونی یا ذاتی مقصد کے لئے استعمال کریں تو ریاست کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ عام شہری ریاست کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ اگر ریاست شہریوں کی حفاظت کے مقصد کو فراموش کر دے تو اس کے نتیجے میں جو تشدد جنم لیتا ہے وہ نہایت خوفناک ہوتا ہے۔ اسی لئے ریاست کے بل پر کئے جانے والے تشدد کو عام تشدد سے الگ اصطلاح دی گئی ہے، اسے ایذا رسانی کہتے ہیں۔ ٹارچر کو جائز سمجھنے والی ریاست اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ ٹارچر کی اجازت دینے والا معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ایسے معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جو معاشرہ ٹارچر کو ختم نہیں کرتا، وہ تشدد پر بھی قابو نہیں پا سکتا۔
یہ غلط تاثر عام ہے کہ پولیس اور دوسرے ریاستی ادارے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایذا رسانی کا حربہ اختیار کرتے ہیں۔ درحقیقت ٹارچر کے باعث انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں رہتی۔ بہت سے بے گناہ لوگ تشدد کے خوف سے ناکردہ افعال کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف اصل مجرم سزا سے بچ نکلتے ہیں بلکہ بے گناہ افراد کو سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ ایذا رسانی پر مبنی تفتیشی عمل اور قانونی کارروائی کے نتیجے میں جرائم میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ جرم کی تفتیش کا صحیح اصول یہ ہے کہ جائے وقوعہ سے شواہد حاصل کر کے مختلف مفروضات قائم کیے جاتے ہیں اور ان کی مزید تحقیق کر کے مجرم کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایذارسانی پر مبنی تفتیش میں مختلف مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے انہیں اذیت دی جاتی ہے اور جرم کا اعتراف نیزشواہد جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے جرم کے بیشتر واقعاتی شواہد ضائع ہو جاتے ہیں اور اگر پولیس حقیقی مجرمان کو گرفتار بھی کر لے تو عدالت میں ان کا جرم ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایذا رسانی کے نتیجے میں عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اعتماد کا جو بحران پیدا ہوتا ہے اس کے باعث عام شہری پولیس سے تعاون نہیں کرتے۔ ٹارچر کی موجودگی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ کی بجائے خوف و ہراس کا نشان بن جاتے ہیں۔ آئین پاکستان کے دوسرے حصے کے باب اول میں بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں شق 14 (ذیلی دفعہ 2) کہتی ہے، ”اعتراف یا ثبوت کے حصول کی غرض سے کسی کو اذیت نہیں دی جائے گی۔“ ابن انشا نے کہا تھا، ”ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی، انسان کو رکھتیں دکھیارا“۔ صاحب وہ جو سیاسی مخالفت کی بنا پر عقوبت خانوں کی رونق بڑھائی جاتی ہے۔ رقم بٹورنے کے لئے شہریوں کی کھال اتاری جاتی ہے۔ جہاں گاؤں میں نئے تھانیدار کی آمد کی اطلاع دینے کے لئے پندرہ بیس کی چھتاڑ کی جاتی ہے۔ اس اذیت رسانی کو کس ذیل میں رکھئے گا؟ ہمارے دستور نے قانون کی کھتونی بھرنے کے لئے ”اعتراف یا ثبوت کے حصول “ کا پٹ ذرا سا کھولا اور پھر بند کر لیا۔
ایک معروف صحافی نے اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے سندھ میں غربت کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک حساس ادارے کے افسر کا قول نقل کیا۔ ”تفتیش کے لئے جب یہ لوگ ہمارے پاس لائے جاتے ہیں اور ہم ان کے کپڑے اتارتے ہیں تو ان کے بدن پر میل کی تہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کئی ہفتوں سے نہائے تک نہیں“۔ واقعہ بیان کرنے والے نے وضاحت کی اور نہ کچھ عرصہ نگراں وزیر اطلاعات رہنے والے صحافی نے سوال کیا کہ ملزم کو برہنہ کرنا تفتیش کے کس ضابطہٴ کار کا حصہ ہے؟ ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ اسد درانی نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا کہا کہ ”خفیہ ادارے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی پوری طرح ادا نہیں کر سکتے‘۔ اگر ایک ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کو قانون سے ماورا سمجھتا ہو تو ٹارچر کا نشانہ بننے والوں کی بے بسی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھری مجلس میں فرمایا کہ ”مال مسروقہ کی برآمدگی تو ٹارچر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔“ پاکستان کے ایک سابق صدر نے اخباری انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے ایک یورپی ملک کے سفیر کی پٹائی کا حکم دیا۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ہماری اجتماعی ترجیحات اور رویوں کا منطقی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں آئے روز ایذا رسانی کے بدترین واقعات پیش آتے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ چند برس سے ریاستی موٴقف سے اختلاف رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور ابھی یہ بھیانک سلسلہ ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ پاکستان کی طرف سے ٹارچر کے خلاف بین الاقوامی معاہدے کا حصہ بننے کے بعد بھی ایسے واقعات قانون کے بارے میں ریاست کے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار ہیں۔ اگر ہم نے ٹارچر کے بارے میں بین الاقوامی قانون کی توثیق کر ہی دی ہے تو اب اس کے تقاضے بھی پورے کیجئے۔ کیونکہ غنیم کے جو لشکر ہماری فصیلوں پہ دستک دے رہے ہیں، وہ تو ملکی قانون کو مانتے ہیں اور نہ بین الاقوامی قانون کو تسلیم کرتے ہیں۔
تازہ ترین