• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی قریبی گاؤں سے آتی ہے محلے میں کسی سے جھگڑاہو گیا اور معاملہ تھانے تک پہنچ گیا۔ دونوں طرف سے رپورٹیں درج ہوگئیں اور دونوں کی جیبیں ہی خالی نہیں ہوئیں ، قرضہ بھی چڑھ گیا۔ ایک کی تو بھینس بھی بک گئی۔ پولیس والوں کی گھرکیاں، ٹھڈے اور گالیاں الگ ہیں ابھی تو معاملہ تھانہ میں ہی ہے، کچہری میں جائے گا تو کیا قیامت گزرے گی؟ تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی عجوبہ کہانی نہیں۔ ایسی داستانیں ہر بستی، محلے، گاؤں میں ہر روز تخلیق ہوتی ہیں اور ارض پاک کی کثیر آبادی مسلسل کبھی نہ ٹھنڈے ہونے والے اس جہنم کا ایندھن بن رہی ہے۔ کیا کبھی کسی نے ان بد نصیب پاکستانیوں کے بارے میں سوچا ہے؟
انتخابات کی گہما گہمی کے دنوں میں تقریباً ہر پارٹی کے پلیٹ فارم سے بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی اداروں کے قیام کی بات کی گئی۔ عام آدمی کی امپاورمنٹ اور اختیار و اقتدار کو گراس روٹ لیول تک لیجانے کا عندیہ دیا گیا، جہاں لوگ اپنی تقدیر کے خود مالک ہوں گے۔ اپنے فیصلے خود کریں گے۔ سرکاری اہلکار ان کے ماتحت نہیں تو ان کے معاون ضرور ہونگے۔ تھانہ کچہری دہشت کی علامت نہیں۔ تحریک انصاف تو ایک قدم اور آگے چلی گئی کہ کوئی اہلکار ان کی مرضی کے بغیر ان کے علاقہ میں متعین نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ اپنے تھانہ انچارج کا انتخاب بھی وہ خود کریں گے۔
یہ سب بجا، مگر تجربہ کچھ اور بتاتا ہے کہ ہم پاکستانی بلدیاتی اداروں کی افادیت و اہمیت کا تذکرہ بڑے زور و شور سے کرتے ہیں۔ مگر محض بول بچن کی حد تک ذہنی تحفظات کے ساتھ، اور ذاتی و گروہی مفادات کے آئینے میں قرائین بتاتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کی ساخت اور اختیارات کے حوالے سے جملہ صوبائی حکومتیں اپنی اپنی راہ تراشیں گی۔ جو کچھ غلط بھی نہیں، عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے اور اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھیں کریں۔ مگر خدارا ایک چیز ضرور کریں کہ مجوزہ بلدیاتی نظاموں میں پنچائت اور مفاہمتی کونسل کی گنجائش ضرور پیدا کریں، ملک و ملت پر یہ ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔ بستی اور محلہ کی سطح پر کوئی مفاہمتی فورم نہ ہونے کی وجہ سے پانچ پانچ، دس دس ہزار مالیت کے مقدمات عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ معمولی توتکار، دنگا فساد اور سماجی نوعیت کی شکایتیں پولیس کے پاس پہنچتی ہیں، تو سب سے پہلے دونوں جانب کی جبیں خالی کروائی جاتی ہیں اور پھر انہیں وکیلوں اور ججوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جہاں زندگیاں ہی نہیں، نسلیں برباد ہو جاتی ہیں، آج صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیز کی عدالتوں میں تین ملین سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ ہماری کناروں تک ابلتی جیلوں کے دو تہائی باسی یہی انڈر ٹرائل قیدی ہیں۔ اپنے انجام سے صریح بے خبر یہ بدنصیب ہر روز جیتے ہیں اور ہر روز مرتے ہیں۔ اس حوالے سے جب بھی کسی بھی فورم پر بات ہوتی ہے تو ہمیشہ ایک ہی سفارش آتی ہے کہ ججوں کی تعداد بڑھا دو، مستقل اضافہ ممکن نہ ہو تو معقول تعداد میں ریٹائرڈ ججوں کی عارضی بھرتی کرکے کم از کم بیک لاگ تو نمٹایا جاسکتا ہے۔
مگر مسئلہ کے موثر اور پائیدار حل کی جانب کوئی نہیں آتا کہ مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی کیلئے میکنزم تشکیل دیا جائے۔ جو پنچایتی نظام کی شکل میں پہلے سے مو جود ہے، جو ہمارے مزاج اور روایت کے مطابق ہے اور صدیوں سے ڈیلیور کرتا آیا ہے۔ ہم زود رنج اور جذباتی لوگ ہیں۔ ہر شخص کی زندگی میں کمزور لمحات آتے ہیں، جب اسے کونسلنگ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنچایت سسٹم کوئی نئی چیز نہیں، ایک کامیاب اور آزمودہ نظام ہے، جس کا نفاذ پنچایت راج کے نام سے انگریز نے کیا تھا او آج بھی بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال میں کامیابی کے ساتھ جاری ہے، بھارت میں یہ نظام تین سطحوں پر کام کررہا ہے، گاؤں کی سطح پر، علاقہ کی سطح پر اور ضلع کی سطح پر انگریز سے ورثہ میں ملنے والے اس نظام کی بھارت میں پذیرائی یوں بھی ہوئی کہ مہاتما گاندھی اس کے بڑے معترف تھے۔ اور اسے انڈیا کے سیاسی نظام کی بنیاد کہا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد سے وہاں پنچائت راج کی جڑیں مزید مضبوط ہوچکیں۔1992ء میں بھارتی آئین میں ہونے والی 73 ویں ترمیم نے اس کے لئے امرت دھارا کا کام کیا۔ جس کے تحت ڈیویلیوشن آف پاور ہی نہیں ہوا، معاشی اور سماجی شعبوں میں بھی پنچایتوں کو با اختیار بنایا گیا، اور آئین کے گیارہویں شیڈول میں درج 29/سبجیکٹس پر عملدرآمد کا اختیار بھی ان کے حوالے کردیا گیا۔ انڈیا میں پنچایت راج کے حوالے سے شہرت پانے والے ماہر سماجیات چیٹر جی کا کہنا ہے کہ ”پنچایتی نظام انصاف پر اعتماد بڑھنے سے عدالتوں کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔ لوگ بخوشی اپنے معاملات پنچایت میں لیجاتے ہیں۔ کیونکہ اس نظام کو چلانے والے موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ ہر معاملے کی ہر تفصیل اور ہر تاویل سے آگاہ انہیں کوئی ورغلا سکتا ہے اور نہ چکر دے سکتا ہے۔ وہاں سچ اور صرف سچ کا راج ہوتا ہے اور جھوٹ چل ہی نہیں سکتا۔ کوئی پنچ چاہے بھی تو حقیقت سے منہ موڑ نہیں سکتا اور پھر بستی محلہ میں سب نے مل کر رہنا ہوتا ہے قوتی طور پر رنجش ہوسکتی ہے، مگر اسے دور تک نہیں لیجایا جاسکتا۔ سب جھگڑوں کا انت صلح پر ہوتا ہے۔ اور جہاں تباہی کے بعد پہنچنا ہے، بہتر نہیں، شروع میں ہی موقع سنبھال لیا جائے؟ یہ اپنے لوگ ہوتے ہیں، صدیوں کی جان پہچان والے، ذرا سی کوشش سے ہی معافی تلافی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ کسی نے واقعی زیادتی کی ہے تو بہتر ہے موقع پر ہی ازالہ کردیا جائے۔ سنجیدہ قسم کے سماجی اور عائلی معاملات بھی کونسلنگ اور چھوٹے موٹے جرمانوں سے سلجھ جاتے ہیں یہ نظام تو جانی دشمنوں کو عزیز رشتہ داروں میں بدل دیتا ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو کسی کو جیت کا احساس ہو اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو ہارا ہوا سمجھے۔ یہ نظام سب کو ون ون پوزیشن کی طرف لیجاتا ہے، گویا سب کی جیت سب کا فائدہ۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں فیوڈل سسٹم اور قبائلی رسم و رواج کی قباحتوں اور غلط کاریوں کو پنچایت سسٹم کے کھاتہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مختاراں مائی کا کیس ہو، یا کوہستانی شادی میں تالیاں بجاتی ہوئی معصوم لڑکیوں کا بیہمانہ قتل یا پھر جعفر آباد میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے جیسے واقعات، مجرمانہ افعال تھے۔ جن کا پنچایت سسٹم سے کوئی تعلق نہیں، قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پنچایت کے مفاہمتی کر دار کا تصور جاپان کے لیگل سسٹم میں بھی موجود ہے۔ دیوانی اور عائلی معاملات جاتے ہی ان عدالتوں میں ہیں سہ رکنی مفاہمتی عدالتوں کی سربراہی ایک جونیئر جج کے ذمہ ہوتی ہے، جو بعض حالات میں ریٹائرڈ بھی ہوسکتا ہے۔ دیگر دو مفاہمت کاروں میں کیس کی نوعیت کے مطابق ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، مذہبی رہنما، استاد، سماجی کارکن یا کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی جو بھی قضیہ کو نمٹانے میں زیادہ مفیدو معاون ثابت ہوسکے۔ فیصلہ بالعموم اتفاق رائے سے فریقین کی تسلی کے مطابق ہوتا ہے اور شاید ہی کسی فیصلہ کے خلاف اپیل کی نوبت آتی ہے۔
حکمران مسلم گیلانی نے اس حوالے سے اپنی سوچ واضح کردی ہے عوامی اصلاحات کے ایک پیکج پر کام شروع ہوچکا۔ غیر ضروری مقدمہ بازی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کیلئے تھانہ کی سطح پر مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنانے کا عندیہ دیا ہے جن کے ذریعے معمولی نوعیت کے مقدمات میں فریقین میں مصالحت کرائی جائے گی۔ مجوزہ مصالحتی کمیٹیاں ریٹائرڈ ججوں اور ممتاز شہریوں پر مشتمل ہونگی بہت اچھی بات مگر یہ اہتمام بلدیاتی نظام کے تحت قائم ہونے والی پنچائتوں کا حصہ ہونا چاہئے اور اس کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پنچائت سسٹم سے الگ کرکے مجوزہ مفاہمتی اور مصالحتی کمٹیوں کی کامیابی محل نظر ہے۔
تازہ ترین