• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر مسئلہ پر بات ہوتی ہے۔ اقتصادیات سے لیکر دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ سے لیکر امریکہ گردی تک دن رات زبانیں اور قلم قینچیوں کی طرح چلتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک ہر کوئی ہر موضوع پر گفتگو میں مصروف ہے لیکن افسوس سیاسی، سماجی، فکری و مذہبی لیڈرز میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے اس زوال پذیر معاشرہ کے اصل کوڑھ کی نشاندہی کی ہو۔ شاید میں وہ تنہا آدمی ہوں جو کبھی کبھار ڈرتے ڈرتے اپنے حقیقی المیہ پر بات کرتا اور پھر کچھ لوگوں سے یہ طعنے بھی سنتا ہے کہ اسے یہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اور یہ آدمی عوام کو بھی برا بھلا کہنے سے باز نہیں آتا۔
میرا دکھ اور ہے کہ میں اس ملک کو مضبوط ترین اور معاشرہ کو بہترین دیکھنے کے جنون میں مبتلا وہ حقیقت پسند بدنصیب ہوں جو بدبو کو خوشبو اور بدصورتی کو خوبصورتی نہیں لکھ سکتا۔ میں اپنے بزرگوں، بھائیوں، بیٹوں سے جھوٹ بولنے کا جرم بھی نہیں کرسکتا۔ کون سا باپ ہوگا جو اپنے بے راہرو، غیر ذمہ دار اور نالائق بچوں کو جھنجوڑنے جگانے کیلئے ہاتھ پاؤں اور سر نہیں مارے گا؟۔
رب کعبہ کی قسم، اپنے آقا کے قدموں کی دھول کی قسم اگر اکانومی سنبھل بھی گئی، دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہوگیا، لوڈشیڈنگ کے اندھیرے چھٹ بھی گئے، امریکن غلبہ سے نجات بھی حاصل ہوگئی، قرضوں کا بندوبست بھی ہوگیا … تب بھی اس ملک و معاشرہ کو سکھ، سکون، شانتی اور قرار نصیب نہیں ہوگا۔ بے چینی،بے قراری، بے سکونی اور عدم تحفظ یونہی ہمارا تمہارا مقدر رہے گا کیونکہ یہ معاشرہ قاتلوں اور مقتولوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور اس کا ہر قاتل مقتول بھی ہے اور ہر مقتول قاتل بھی۔ عجیب جادوئی سا معاشرہ ہے۔
”جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو قید تھے اب صیاد ہوئے“
مدتوں پہلے فیض احمد فیض جیسے سادھو، سنت، جوگی اور مجذوب قسم کے عاشق دھرتی نے دھیمے سروں میں چیخ کر کہا تھا۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
امریکہ اور اشرافیہ کو دن رات برا بھلا کہنے والو ! …
کبھی سوچا تم ہم نے کہ ہم خود کون ہیں؟ ہمارے اعمال اور کرتوت کیا ہیں؟ بے غیرتی اور بے حمیتی کا اصل مطلب کیا ہے؟ ہم ایک دوسرے کو کیسے کیسے اور کس کس طرح برباد کررہے ہیں؟ ہم خود ایک دوسرے کیلئے ”ڈرون“ اور ''IMF'' سے کم نہیں اور کمال زوال یہ کہ کوئی بھونپو اس پہ بولتا تک نہیں۔چند روز پہلے میں نے کسی ٹی وی چینل پر اک انتہائی بھیانک رپورٹ دیکھی۔ پانی کے حوض تھے اور پانیوں میں کوئی کیمیکل ملا کراس میں ادرک ڈال دیا گیا تھا۔ کیمیکل زدہ یہ پانی ادرک کا نہ صرف وزن بہت بڑھا دیتا ہے بلکہ اس کو اک خاص طرح کی چمک بھی عطا کرتا ہے لیکن … یہ مہلک ترین زہر بن چکا ہوتا ہے تو یہ سب کچھ کوئی امریکن، یہود و قنود اور ہنود نہیں تمہارے اپنے تمہارے ساتھ کررہے ہیں۔ ڈرون سے مرنے والوں کا ریکارڈ ہے لیکن اس ”ادرکی کینسر“ کے شکار مردوں کی لاشیں بھی تو گنو۔چند سال پہلے تک میری اہلیہ اور میں … (میں کبھی کبھی) سبزی خریدنے جاتے تو مہنگے داموں چھلا چھلایا لہسن خریدتے تاکہ چھیلنے کی زحمت نہ ہو اور ملازم بچیاں اس فالتو مشقت سے بچی رہیں۔ تب اک معمر خاتون نے پوچھا … ”آپ حسن نثار ہیں؟“ میں نے اعتراف جرم کیا تو بولیں ”بیٹا! تمہارے مسلمان پاکستان بھائی لہسن کو تیزاب میں ڈال کر ”چھیلتے“ ہیں جس سے لہسن زہریلا بلکہ کینسرس ہوجاتا ہے“ میں نے اگلی دکان سے اہلیہ کو بلایا، بزرگ خاتون سے ملوایا اور عرض کیا … ”آنٹی! اسے سمجھائیں“خود کو برباد کرنے کیلئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اپنی نسلوں کی تباہی کیلئے ہم خود ہی ایک دوسرے کیلئے کافی ہیں۔ میں مدتوں سے چیخ رہا ہوں کہ بچوں کی غدا دودھ میں ایسی ایسی غلیظ ملاوٹ ہے کہ دودھ کے لفظ سے نفرت ہو جائے حالانکہ بچپن میں میں نے اپنے بزرگوں کو دودھ کیلئے ”اللہ کا نور“ جیسے لفظ استعمال کرتے سنا۔ہمارا روگ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کا زوال ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں۔ کیا معاشرہ ہے جہاں نہ دوا پر بھروسہ نہ غذا پر نہ کسی پیشہ ور کی دعا پر۔ مری ہوئی مرغیاں، بیمار جانوروں کا زہریلا گوشت، مٹن میں پانی کے انجکشن، بیسن سستا لیکن چنے کی دال مہنگی، چائے کی پتی خون آلود، کچھووؤں اور کتوں تک کا گوشت بکتا ہے … سرکاری ملکی زمینوں پر قبضے کہ ناجائز قبضہ تو ”بیوہ“ اور ”یتیم“ کی زمین پر ہی ممکن ہے تو کیا یہ سرزمین ”بیوہ“ اور ”یتیم“ ہے؟چند روز پہلے صحافی اعظم حسین نقی کا انٹرویو نظر سے گزرا۔ بانیان پاکستان میں سے ایک حسین نقی صاحب سے کہتا ہے … ”تم کس چکر میں پڑے ہو پاکستان تو تباہی لوٹ مار کیلئے ہے“ ایسی ہی بات سرونسٹن چرچل اور پھر ہمارے علامہ المشرقی نے بھی کہی تھی تو کیا ہم نے ان سب کو سچا ثابت کرنے کی قسم کھا رکھی ہے؟ہمیں اپنا غلیظ اور مکروہ ترین چہرہ دیکھنا اور پھر اس کی سرجری بھی کرنا ہوگا ورنہ … اس خبر کے بعد جو خود کو باعزت سمجھے، اس پر کہاں جا کر ماتم کروں؟ خبر کی سرخی ملاحظہ فرمائیں۔”سرکاری پٹرول، ڈیزل کی چوری۔ خرید و فروخت کے لئے مارکیٹیں قائم۔“جنگ گروپ کے روزنامہ”وقت“ میں شاہد علی انکشاف کرتے ہیں کہ پولیس سمیت تمام سرکاری محکموں کی گاڑیوں کے چوری شدہ پٹرول اور ڈیزل کی خرید و فروخت کیلئے شہر کے مختلف علاقوں میں بڑی بڑی مارکیٹیں کھل چکی ہیں۔ رات 12 سے صبح 5 بجے تک اور دوپہر 12 سے 4 بجے تک روزانہ ہزاروں لیٹر پٹرول ڈیزل آدھی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ہمیں کسی ڈرون، لوڈشیڈنگ، قرضوں اور تباہ حال اقتصادیات سے نہیں … اپنی اس ”اعلیٰ اخلاقیات“ سے خطرہ ہے۔ ہم اپنی رگوں میں سٹرا گاڑ کر خود اپنا خون پی رہے ہیں۔ ہم وہ خودکش بمبار ہیں جو ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔میں کوئی ہولچی (ALARMIST) نہیں لیکن کیا کروں کہ نہ عقل موٹی ہے نہ کھال۔ اگر ”اوور ری ایکٹ“ کررہا ہوں تو مجھے مطلع فرمایئے تاکہ میں تو کڑھنا بند کرو۔ہم ڈرونوں سے بچ سکتے ہیں لیکن ہمیں اپنے آپ سے کون بچائے گا؟
تو میرا میں تیرا قاتل
کون عدالت جائے
تازہ ترین