• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مشہور پنجابی لطیفہ ہے کی ایک مرتبہ ایک کسان ایک دوسرے کسان کو اپنے کھیت میں ہل چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ان میں کچھ بات چیت ہوئی ، پہلے کسان نے جو کہ دوسرے کو دیکھ رہا تھا دوسرے کسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہل کا پھل درست سمت میں نہیں ہے اور تم بے ترتیبی کر رہے ہو۔ دوسرے کسان نے پہلے کسان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ تم کیا بات کرتے ہو ؟تمہاری بہن تو چوہدری کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی، پہلا کسان بہت حیران ہوا اور سوال کیا کہ اس بات کا کسی بھی چیز سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ دوسرے کسان نے پنجابی زبان میں اس کا جواب دیا (گلاں توں گل نکلدی اے) کہ بات سے بات نکلتی ہے۔ بات چیت کا یہ تبادلہ دہشت گردی کیخلاف ہماری منطلق کو وضع کرتا ہے، یہ سب کچھ ڈرونز کی وجہ سے ہے۔گزشتہ سال ہم نے دیکھا کہ شہباز شریف حکومت کے زیر انتظام لاہور میں ایک خاص جدوجہد کے بعد پاکستان نے کچھ ریکارڈز گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرائے۔ ممکنہ طور پر ہم ایک اور ریکارڈ کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں50ہزار سے زائد اس کے شہری اور ریاستی مشینری کے لوگ مارے گئے ہوں اور وہ اب بھی ان لوگوں سے ناراض نہیں جو یہ قتل کر کے بڑے فخر سے ایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ امریکہ ایک ظالم سامراجی شاہی ریاست ہوسکتی ہے لیکن اس نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسی دو غیرمقبول جنگیں لڑی ہیں تاکہ امریکہ کو ایک محفوظ ریاست بنایا جاسکے اور اس کے شہریوں پر حملہ کرنے والے افراد کی طاقت کو ختم کیا جاسکے، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے بارے میں ہمارا کیا ردعمل ہے، جو معصوم پاکستانی شہریوں کو قتل کر رہے ہیں، ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو نشانہ بنارہے ہیں، ہماری فوج کیخلاف لڑ رہے ہیں اور ہمارے فوجی جوانوں کو قتل کر رہے ہیں؟ ہم ان لوگوں کی ان کارروائیوں پر معافی مانگتے ہیں۔ ہم ان مارنے والی مشینوں کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جن میں ٹی ٹی پی، ایل ای جے، ایل ای ٹی کے لوگ فسادی ہیں اور ان کے حوالے سے کوئی تذبذب نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ یہ دہشت گرد دشمنوں کے آلہ کار ہیں جن کی ڈور بیرونی ہاتھوں میں ہے اور کیا یہ اچھے مسلمان ہیں جو ریاست سے ناراض ہیں۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ اگر بیرونی مداخلت کو ختم کردیا جائے یا ریاست کی سطح پر صفائی کی جائے، دونوں ہی صورتوں میں سونے کا دل رکھنے والے یہ قبائل دوبارہ اپنے کاموں میں مگن ہوجائیں گے۔بحیثیت امہ ہمارے انفرادی تصورات اور ہماری حقیقت میں ایک واضح تضاد ہے۔ بطور مسلمان ہم اس بات پر قائل ہیں کہ ہم اچھائی کیلئے متعین کئے گئے ہیں تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم امہ کی باگ ڈور سنبھالنے میں ہم سب سے پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارا ردعمل مشاہداتی نہیں ہوتا، ہم سب کچھ کو سازش قرار دیتے ہیں۔ پوری دنیا ہمارے خلاف متحد ہوچکی ہے اسی لئے ہمیں اغیار کے بنائے ہوئے قوانین کی غلامی تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ اس طرح کی باغیانہ سوچ ہمیں بطور شہری بے اختیار کرنے کے تاثر کو تقویت بخشتی ہے۔ ہماری پھیلتی ہوئی آبادکاری جن میں ہمارا شطرنج کی طرح کا سیاسی نظام بھی شامل ہے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں کی سازشی نشوونما ہوئی ہے اور اب ہم اپنے فیصلوں اور قسمت پر قابو نہیں رکھ سکتے۔
اسی وجہ سے ہم سوچنے کی اپنی ذہنی آزادی کھو چکے ہیں۔ ہم آزادی سے سوچنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اپنی پسند نا پسند اپنی مرضی سے نہیں کرتے۔ اگر آپ ریاست کے خلاف کوئی بات کریں یا کوئی اقدام کریں تو یا تو دشمن کے ہاتھوں آپ کی ذہن سازی کی گئی ہو گی یا آپ اس کے پیرول پر ہوں گے۔ ہم اپنے ملک میں پیدا ہونے والے اور پلنے والے دہشت گردوں کے بارے میں بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔ ان لوگوں کے حمایتیوں کا یہ موقف ہے کہ (چاہے ان کی ذہن سازی کی گئی ہو یا یہ دشمنوں کے پیرول پر ہیں) یہاں پاکستانیوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کی بات نہیں۔ ان کے مطابق شیطانی دنیا مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے جو کہ خطے میں مذہب کے نام پر لڑنے والے شدت پسندوں کو دنیا پر مزید سختی کی ترغیب دیتی ہے۔نئی سیکورٹی اور ہر حملے کے بعد افسران کو ان کے عہدوں سے معطل کرنے سے ہمیں درپیش اس کینسر کا علاج نہیں ہوگا۔ ہمیں عالمی نظریئے سے ہم آہنگ ایک نئی نظریاتی سوچ کیساتھ آگے آنا ہو گا جس میں بطور قوم اور ریاست خطے میں ہمارے کردار کے حوالے سے ہماری سوچ کے مقاصد واضح ہوں۔ اکیسیوں صدی میں پاکستان کا ابتدائی مقصد مسلم امت کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا اور دنیا کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہے؟اور کیا ریاست کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کی زندگی، سیکورٹی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے تک محدود ہے۔ اگر بعدازاں ذکر کئے گئے مسائل حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں تو کیا ہم ان ممالک کی مثالوں کا جائزہ لیتے ہوئے جن میں شمالی کوریا، کمیونسٹ کیوبا، طالبان کی زیر قیادت افغانستان شامل ہیں پاکستانی شہریوں کی اور ان کے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے۔کیاہم ایک عالمی کمیونٹی کا ایک بہتر رکن ملک ہوسکتے ہیں جو کہ صرف اپنے شہریوں کے مسائل کے حل پر توجہ دے اور خود کو عالمی خطرات سے باز رکھ سکے؟ اگر ہم عالمی کمیونٹی کا ایک ذمہ دار رکن ملک بننا چاہیں تو کیا یہ قومی سیکورٹی کے اس نظریئے کی روشنی میں ممکن ہو سکے گا جوکہ ملک میں غیر ریاستی عناصر کے وجود یا اس کے استعمال کو تسلیم نہیں کرتی۔ اگر ہم موجود قومی ریاستی نظام کو تسلیم کریں اور ریاست کی خود مختاری اور علاقائی حدود کی سالمیت کو اوپر وضع کئے گئے نظریئے کے مطابق دیکھیں اور اس پر ہونے والے اعتراضات کو دور کئے بغیر کیا ہم ایک ایسے سسٹم کے تحت اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ جب بھی ملک میں کوئی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں تو ہم خود ہی اس کا ذمہ دار غیر ریاستی عناصر کو ٹھہراتے ہیں جب ایک آزاد زمین پر غیر ریاستی عناصر دہشت گردی کے منصوبے بنارہے ہوں اور ان کی ڈور ہمارے دشمن ممالک کے ہاتھوں میں ہو ایسی صورتحال میں ہم کب تک دنیا سے یہ مطالبہ کرتے رہیں گے کہ وہ ہماری خودمختاری کا احترام کریں ؟کیا ایک ریاست کا وجود ایسی صورتحال میں باقی رہ سکتا ہے جب ہمارے ملک کے ایک بڑے علاقے پر غیر ریاستی دہشت گرد گروپوں کا قبضہ ہے اور وہ اسے ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے استعمال کریں۔ہزارہ کمیونٹی، شیعوں، غیر ملکی کوہ پیماؤں، اسکول کی لڑکیوں، ججوں، وکیلوں، پولیس افسران، فوجی چوکیوں اور فوجیوں کیخلاف حملے ریاست اور اس کی حکومت کے شیرازے کو بکھیرنے کی غماض ہے۔ ہم افغان جہاد اور ضیاء الحق کے اسلامائزیشن کی جانب انگلیاں اٹھا سکتے ہیں جو کہ مغرب کی منافقت کے باعث دہشت گردی کی علاقائی وجوہات کو تقویت ملی تاہم ان میں سے کوئی بھی دہشت گردوں کو ہمارے ملک میں پنپنے اور ہمارے اپنے ہی شہریوں کا خون بہانے اور ریاست کی رٹ کو تہ وبالا کرنے سے نہیں روک سکے گی۔ ہمیں اس کڑے سچ کو قبول کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی ایک موثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ خود حملوں کی زد میں ہونے کے باوجود ہماری فوج دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کو برداشت کر رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی طلب ورسد کا خاتمہ کرنے کیلئے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو غیر ریاستی عناصر کو پاکستانی شہریوں کیلئے سب سے بڑا خطرہ نہیں سمجھتے اور ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی سوچ ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ بنیاد پرست ہوتا جارہاہے۔ باوجود اس کے کہ یہ کہیں ایک سچا مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو قتل نہیں کر سکتا، ہمارے درمیان لوگوں کی ایک ایسی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو اپنے نظریات کے مطابق دوسرے کو غلط قرار دیکر قتل کرنے کو جائز قرار دیتی ہے اور مزید یہ کہ ایسے قاتلوں کو بغیر کوئی سزا دیئے چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک ممبر اسمبلی ممتاز قادری کو باعزت بری کئے جانے کے حامی ہیں جو کہ ایسی سوچ بنیاد پرست سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو ریاست کی جانب سے بتدریج بنیاد پرستی کے دلدل میں دھنس چکا ہے اس میں اصلاحات کیلئے انقلابی سوچ رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے، کیا ہمارے پاس کوئی ہے؟
ہم اپنی ریاست کے اختیار اور اس کی صلاحیتوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ ان کی حالت تباہ کن ہے اور ان کی از سر نو تعمیر کرنا ہوگی۔ ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں ہمارے ریاستی ادارے پوری طرح بااختیار نہیں اور ان کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کے بارے میں معلوم ہے کہ کراچی میں سی سی ٹی وی کمرے کام نہیں کر رہے اور قبائلی ایجنسیوں میں جرائم پر مبنی نظام قائم ہے جہاں دہشت گرد دنیا کی چھٹی بڑی فوج سے نبردآزما ہیں۔ ہمیں ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان کو جس طرح ہم چاہتے ہیں اور دہشت گردوں کو ختم کر کے ہی ایسا ممکن ہوسکے گا۔ ایک ایسی صورتحال میں کہ جب تمام مسائل کی جڑ اپنے ہی ملک میں موجود ہے اور ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھائیں یہ نہ صرف لاپروائی ہوگی بلکہ ایک مجرمانہ فعل بھی ہوگا۔
تازہ ترین