• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری روایتی مذہبی سوسائٹی میں عقیدے کے حوالے سے جوش و خروش تو شدید ہوتا ہے لیکن نالج یا تحقیق نہ ہونے کے برابر۔ شاید اس لئے کہ جوش و خروش کے لئے کسی نوع کی محنت یا جانفشانی کی ضرورت نہیںہوتی جبکہ نالج یا تحقیق کیلئے مطالعہ یا مغز ماری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطالعہ یا مغز ماری کے بھی کئی درجات ہیں۔ ایک سطحی قسم کا مطالعہ ہوتا ہے، کوئی عامیانہ سی کتاب ہتھے لگ گئی یا محض اخباری سرخیاںپڑھ لیں تو خود کو افلاطون یا ارسطو سمجھنا شروع کردیا ۔ پنجابی محاورہ ہے ’’پا نہ پڑھی تے وخت نوں پھڑی‘‘۔دیکھا یہ گیا ہے کہ تھوڑا یا سطحی مطالعہ کرنے والے لوگ ان پڑھوں سے زیادہ خطرناک اور سوسائٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ان پڑھ بے چارے تو مانتے ہیں کہ وہ پڑھے لکھوں سے نیچے ہیں۔ اس سے ان میں ایک نوع کی عاجزی و انکساری آ جاتی ہے جبکہ نیم خواندہ خود کو تیس مار خان خیال کرتے ہوئے ان پڑھوں میں یوں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھیں گے اور اس نوع کی گفتگو کرتے پائے جائیں گے کہ تم جاہلوں کو کیا پتہ ہو اس مسئلے کا، میں بتاتا ہوںفلاں واقعہ یا فلاں ہستی کا قصہ۔اگر یہ لوگ کسی مذہبی ایشو پر گفتگو کریں گے تو اس تیقن کے ساتھ جیسے اپنے وقت کے امام ہوں۔یہ تو نیم خواندہ یا پسماندہ لوگوں کی کہانی ہے اس سے ملتی جلتی اسٹوری ان لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر ڈاکٹری یا پی ایچ ڈی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں لیکن حرام ہے جو اپنے شعبے سے متعلق بات کریں۔ مثال کے طور پر موصوف نے پی ایچ ڈی فزکس میں کر رکھی ہے لیکن بحث مباحثہ عمرانیات و ا لہیات میں کرتے پائے جائیں گے۔ اگر غلط بیانیوں پر ٹوکا جائے تو فوراً علم کا خمار دماغ سے ہونٹوں پر اتارتے ہوئے گویا ہوں گے میں پی ایچ ڈی ہوں کوئی عام بندہ نہیں۔ اگر کہا جائے مہاراج پی ایچ ڈی آپ کیمسٹری میں ہیں اور منہ ماری آپ الہیات میں کر رہے ہیں اس کا کیا جواز بنتا ہے۔

بہت سے ایسے کرم فرمابھی مل جاتے ہیں جن کی ذہنی سطح کو ملاحظہ کرتے ہوئے انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ نہ معلوم انہوں نے تحقیقی کام کب اور کیسے کیا ہے یا پی ایچ ڈی بھی کسی لیاقت پر نہیں کسی ’’آمر لیاقت‘‘ کی چابک دستی، چالاکی یا الٹی سیدھی حیلہ سازی سے کی ہے۔ تب احساس ہوتا ہے کہ شعوری ذہانت یا نالج ڈگریوں کا محتاج نہیں، کئی چٹے ان پڑھ ہوتے ہوئے ایسی زیرکی و دانائی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسان کا ڈگری ہولڈروں سے بابا اشفاق کی طرح یقین اٹھ جائے۔ لیکن نہیں ہم سب کو علم کے ساتھ ساتھ سامان علم یا پڑھے لکھوں کی قدر کرنی چاہئے اور ان پڑھے لکھوں کو بھی چاہئے کہ خود کو اپنے متعلقہ شعبے کے ایکسپرٹ کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے ہر فن مولا کہلانے کا خبط ذہن سے نکال دیں، مت بھولیں کہ آپ کے اوپر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ سے کہیں زیادہ جانفشانی و عرق ریزی کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شہرت کو نالج سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میڈیا میں زیادہ موقع ملنے کی بدولت یا اپنے دیگر ذرائع اوراثر و رسوخ کی برکت سے اگر حضرت کی شہرت قومی سطح پر پھیل چکی ہے تو اب وہ ادھر ادھر کی بھی ہانکیں تو گویا معرفت بکھیر رہے ہوں گے۔ خواہ جن آنے والی نسلوں یا صدیوں کا تجزیہ حضرت نے فرمایا یہساری شیخیاں اگلے ماہ ہی غلط ثابت ہو جائیں مگر موقع کی مناسب سے محفل تو سرکار لوٹ چکے ہیں۔ کل کس نے دیکھا ہے اور کس کو یاد رہتا ہے۔ ایسے معززین کی چٹکلے سازی، فقرے بازی یا زبان درازی بھی نالج کی ایک قسم خیال کی جاتی ہے جس پر انہیں اتنا ناز ہوتا ہے کہ چاہے بندہ جائے فقرہ نہ جائے، دید لحاظ، مروت، تہذیب ان کی بلا سے۔

شکل شباہت، ڈیل ڈول، گیٹ اپ اور وضع قطع کا بظاہر نالج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کا استعمال اتنی خوبیوں سے کیا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے دیکھنے والے جاہل کو عالم اور عالم کو جاہل خیال کرنے لگیں۔ اعلیٰ دماغ کے ساتھ ساتھ خوبصورت آواز یا دلفریب خدو خال کی اپنی اہمیت ہے۔ آپ کی ذہنی و دماغی صلاحیتوں کا علم بعد میں ہوگا لیکن آخر الذکر خصوصیات بالخصوص خدو خال کا امپکیٹ فوری ہوگا۔ اس طرح کئی لوگ بظاہر بہت ہوشیار یا تیز طرار ہوتے ہیں مگر ذہین نہیں ہوتے۔ پوری دنیا میں جو نوبل پرائز حاصل کرتا ہے اسے اس کی قوم سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے، اسے قومی ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس نے اقوام عالمِ میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اپنی حالت یہ ہے کہ سب نے ڈگڈگی ہی بجائی ہے۔ نوبل پرائز تو رہا ایک طرف کوئی اس قابل نہیں ہوا کہ جس کو عالمی سطح پر احترام یا قدر و منزلت کی نظروں سے پہچانا جاتا ہو اگر کوئی اتفاقی حادثے یا جدوجہد سے اس مرتبے پر پہنچا ہے کہ اقوام عالم اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں تو ہماری جذباتیت نے ان پر تھوکنا شروع کردیا ہے کیونکہ اس میں بھی ہمیں یہود کی سازشیں دکھائی دیتی ہیں۔

تازہ ترین