• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر کے آم اپنے مزے ، کالی گھٹاؤں اوررم جھم میں آموں کے باغ میں کوئل کی کوک اور ٹھنڈی ہواؤں میں جھولوں کے نظارے اپنی ہی ایک شان رکھتے ہیں۔ آم نے ہماری شاعری ، ادب اور کلچر میں بڑی خوبصورتی سے خوب جگہ بنائی ۔ مینگو ڈپلومیسی ، مینگو پی آر شپ اور اب ”مفاہمت کی سیاست“ میں بھی میٹھے میٹھے آموں کی پیٹیوں کو انسٹرومنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کی سب سے جمہوریت پسند ، سیاسی مفاہمت، ادب آداب اور شائستہ سیاسی ابلاغ کے آخری نمونے نوابزادہ نصر اللہ خاں کے آموں کے تحفے سیاست دانوں اور جمہوریت پسند اخبار نویسوں کو آموں کے موسم میں آتے ۔ فقیر بھی کئی مرتبہ نواب صاحب کی نکلسن روڈ والی بیٹھک میں آموں سے لطف اندوز ہوا ور دو مرتبہ فقیر خانے پر بھی آئے ۔ نواب صاحب کے تو اپنے آموں کے باغ تھے اور ان کی شخصیت کی مٹھاس تو اعلیٰ نسل کے چونسہ سے بھی زیادہ تھی ۔ ہمارے موجودہ صدر جناب زرداری کی مسکراہٹیں بھی انور رٹول جتنی میٹھی اور سافٹ ہیں ۔ اب انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ خاں کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے اپنی”مفاہمت ڈاکٹرائن “ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے سیاست دانوں کو نواب شاہ کے آموں کے تحفے بھیجے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کی تو خبریں آئی ہیں کہ انہیں صدر صاحب کے آم پہنچے۔ نہ جانے میاں صاحب ان سے لطف اندوزہوئے یانہیں ، عمران خان نے دال دلیے کی شدید مہنگائی کے شکار ان لوگو ں میں آم بانٹ دیے جو انہیں دیکھ تو سکتے ہیں خرید نہیں سکتے ۔ معلوم نہیں کہ جناب صدر کے آموں کے باغ ہیں یا نہیں ، نہ بھی ہو ں تو کیا ہے ۔ شادی کے بعد سے ان کا ہر روز باغ و بہار رہا ۔ ان کی یہ خوبی ماننا پڑتی ہے کہ وہ جیل میں بھی باغ باغ رہتے ۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ ان کے بلوچ ہونے کاخاصہ ہے ، لیکن یہ سمجھ نہ آئی کہ انہوں نے جلتے سلگتے بلوچستان کو اپنے پانچ سالہ اقتدار میں کیوں مزید جلنے دیا۔ جناب زرداری نے اپنی اس مکمل تابع حکومت کو بلوچستان سنبھالنے کی وفاقی ذمہ داری پوری کرنے سے کیوں گریزاں رہنے دیا ۔
اب کچھ یار لوگ آموں کے پیکیج کو احتساب سے بھی ملا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ احتساب کے لیے پُرعزم وزیر اعظم اور اس کو جاری رکھنے کے جذبے سے سرشار عمران خان کو آموں کا تحفہ ، اصل میں جناب صدر کی طرف سے ”دونوں سیاسی رہنماؤں“پر مفاہمت کا حملہ ہے ۔
اس سے یاد آیا کہ واقعی آج کل میٹھے آموں کا ہی نہیں احتساب کا بھی تو موسم ہے ۔ احتساب ، جو کرپٹ سیاست دانوں کی ڈکشنری کا سب سے کڑوا بلکہ حرام لفظ ہے۔ احتساب بھی ایسا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا ، جس میں خود احتسابی اورکڑے احتساب کے بادل پاکستان میں پٹڑی پر چڑھتی چلتی گاڑی پر منڈلا رہے ہیں۔ ان بادلوں سے ابر رحمت برسنے لگا یعنی کچھ نکل آیا تو کتنی ہی کڑوی گولیاں کھا کھا کر پٹڑی پر چڑھی جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرنے لگے گی ۔ پاکستان میں شدت سے مطلوب احتسابی موسم کا آغاز پرویز مشرف کے جذبہ خود احتسابی سے ہوا ، جوبڑے مخلصانہ مشورے ایک طرف رکھ کر یہ کہتے ہوئے وطن وارد ہو ئے کہ میں عدالتوں کو فیس کر کے خود کو کلیئر کرواؤں گا اور قومی سیاست میں کردار ادا کروں گا ۔ ا ن کا یہ جذبہ خو د احتسابی قابل تحسین ہے۔ سیاست میں ڈرائی کلین ہو کر آنا چاہتے ہیں ۔ پہلے تو ان کے”جرأت مندانہ اقدامات“ نے ملک کا جو بھٹہ بٹھایا وہ بہت واضح ہے۔ البتہ اب پرویز مشرف نے خود کو قانون کی بالا دستی کے لیے مجسٹریٹ کی سطح پر حاضری مانی تو پاکستان میں حقیقی احتساب کا دروازہ کھلے ہی کھلے ۔ اس کا کریڈٹ ریٹائرڈ جرنیل کو بھی ملے گا کہ اس نے الزامات کی بارش میں خود کو قانون کے سپرد کر دیا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ کرپشن کے الزامات سے داغدار ہمار ا ایک سول اور منتخب سابق وزیر اعظم ایف آئی اے اور نیب کو یہ اکڑ دکھا رہا ہے کہ میں تفتیش کے لیے حاضر نہیں ہوں گا جو کرنا ہے کر لو ۔یہ پہلے چلتا تھا تو چلتا تھا ،اب نہیں چلے گا ۔ سابق آرمی چیف کے خلاف بغیر کسی مداخلت کے ٹرائل نے مطلوب احتساب کے دروازے کھول دیے ۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے بے وقت قرار دے رہے ہیں اور وزیر اعظم کو بھی ڈرا رہے ہیں کہ پنڈورا باکس کھل جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوو ں اور اسلامی جمہوریہ کے آئین میں احتساب کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ؟ جو اسلام اور جمہوریت کی روح ہے ۔ملکی سیاست میں احتساب کا پینڈورا باکس جب کھلے گا تو کھلے گا ، پرویز مشرف کے خلاف تو یہ کھل چکا ۔ یوں یہ کفر ٹوٹا کہ کسی جرنیل کا احتساب ممکن ہی نہیں ۔ اب تو لگتا ہے وزیر اعظم نواز شریف کی بلٹ ٹرین اور احتسابی طاقت سے چلنے والی ٹرین ساتھ ساتھ چلیں گی ۔ یوں ملک بحرانوں سے نکلتے نکلتے نکل جائے گا ۔ لیکن اس امید پر ہمارے وزیر اطلاعات نے یہ کہہ کر پانی ڈال دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلانے کے جس حکومت ارادے کا دوٹوک اعلان کیا ہے ، وہ کوئی حکومتی پالیسی نہیں۔ پورے ملک کے میڈیا نے ایوان میں وزیر اعظم کے اس بیان کو پالیسی بیان ہی قرار دیا ہے لیکن یہ عجب ہے کہ دو روز کے بعد ہمارے خاموش طبع وزیر ابلاغیات جناب پرویز رشید کی تشریح نے میڈیا کی اصلاح کی یا نہیں ، لیکن ان لوگوں کو مایوس ضرور کیا جو احتساب اور جمہوریت کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں ۔
یہ تماشہ ساری دنیا نے دیکھا کہ آئین میں منتخب نمائندے کے لیے ”امین و صادق“ کی شرط کے اطلاق پر احتساب سے لرزاں بر اندام ہیں بھڑ ک گئے ۔ انہوں نے اس کی بھد اڑانا شروع کر دی ۔ اس پر بھی نہیں آئے کہ فقط ریکارڈڈ مالی معالات ( خصوصاً ٹیکس و قرض ) سے ہی ”صادق و امین“ہونے کی پیمائش کر لی جائے ، نتیجتاً آج بھی بڑے بڑے ٹیکس چور ، قرض خور اور جعلی ڈگری تیار کرانے والے دھڑلے سے منتخب اسمبلیوں میں پہنچ گئے ۔ فقیر تین سال تک پنجاب یونیورسٹی کی ان فیئر مینز کمیٹی کا رکن رہا ۔ ہم نقل اور امتحان گا ہ میں دوسرے غیر قانونی حربوں سے پرچے حل کر نے والے طلبہ کو ضرور سزا دیتے کہ کہیں امتحانی نظام تلپٹ نہ ہو جائے ۔ قوم کی خیرخواہی کے جن جعلی ڈگری ہولڈروں نے جعل سازی کر کے پاکستانی تعلیمی ادارو ں کی ڈگریوں کو مشکوک کیا ، نقل کر نے والے بچوں کے مقابلے میں ان کا بھی احتساب ضروری ہے ؟
جر م و سزا اور عدل و انصاف کی دنیا میں”معاونت جرم “کی بے حد اہمیت ہے ، کئی جرائم کا ارتکاب معاونت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ اسی لیے تو سزاؤں کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔لہٰذا یہ نہیں چلے گا کہ ایک ہی کو احتساب کا مر کز و محور بناد یا جائے ۔ اگر کوئی ایسا قانون ہے کہ معاونین جرائم زد میں نہیں آسکتے تو یہ سیاہ قانون ہے ، جس کی تنسیخ کر کے ایسا قانون بنایا جائے کہ جرائم کے معاونین کو بھی کٹہرے میں پہنچا یا جا سکے ۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس بہت درست ہیں کہ پنڈورا بکس کھلنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرایا جاسکتا ۔ ہمیں نبی کریم ﷺکا یہ فرمان نہیں بھولنا کہ جو قومیں اپنے کمزوروں کو سزائیں دیتی تھیں اور طاقت ور سزا سے بچ رہتے ،وہ تباہ و برباد ہو گئیں لہٰذا ملک میں اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہی بالادستی قائم کر نی ہے تو اس کی گنجائش ختم کہ غریب غربا ء اپنے مکان کی آخری قسطوں کی عدم ادائیگی پر مکان قر قی کرا بیٹھیں او ر اربوں کی منی لانڈرنگ کر کے سمندر پار پر تعیش اقامت گاہیں اور محلات خریدنے والے سیاست دان احتساب سے بچ رہیں ۔
تازہ ترین