• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26 جون 2013ء کو کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر ایک عرصہ تک ریکی کرکے ریموٹ کنٹرول آلہ سے حملے کیا گیا 9 افراد شہید ہوئے جس میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے مگر یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کی سیکورٹی نظام ہے کہ آگے اور پیچھے موبائل مگر دائیں اور بائیں طرف سے خالی چھوڑ رکھا ہے، مجھے ایک مشیر نے بتایا کہ جب وہ حکومت میں تھے اُن کے سیدھے ہاتھ کی طرف ایک بکتربند گاڑی چلا کرتی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان سیکورٹی اداروں کو سیکورٹی کا نظام کون سمجھائے، اتنے دانا ہیں کہ اپنے آگے کسی کی سنتے نہیں اور اتنے بددل ہیں کہ دل جمعی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ جانتے ہیں کہ موت کا دن متعین ہے مگر خوفزدہ رہتے ہیں، گنتی کے چند پولیس افسران ضرور مستعد ہیں۔ کراچی ویسے بھی دہشت گردوں کے حوالے کردیا گیا ہے، یہاں تین جماعتیں تو وہ ہیں جن کو سپریم کورٹ نے دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رکھا ہے، جس وقت فیصلہ دیا گیا وہ جماعتیں سندھ اور مرکز میں حکمراں تھیں،دہشت گردوں نے سارے شہر کے تاجروں میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے اور خصوصاً پنجابی اور پٹھان اور اردو بولنے والوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ اگرچہ تاجروں کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے، چھوٹی یا بڑی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں سے جوڑیا بازار، صدر، لی مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ (سابق بندر روڈ) سندھ مدرستہ الاسلام کے اطراف اُن کی ہر طرح کی دکانیں ہیں۔ کراچی میں کاغذ مارکیٹ، جنریٹروں، کپڑے، اس کے علاوہ کلفٹن اور طارق روڈ بازار نہ صرف یہ بلکہ شہر کے مختلف علاقوں میں جو تاجر ہیں اُن کو دھمکیاں اور پرچیاں دی جاتی ہیں، کئی شہید ہوئے اور کئی شہر ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک بینک نے اپنا مرکزی دفتر کراچی سے لاہور منتقل کرلیا، اس طرح پاکستان کے معاشی مرکز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کراچی سے لاتعلق ہے اب کچھ اور دہشت گرد تنظیمیں پہاں آ گئی ہیں، وہ بھی اپنی کارروائیاں کررہی ہیں۔ لگتا ہے کہ سب کو اجازت ہے کہ کراچی کو تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں، ہم نے جب سندھ پولیس کے افسران سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 1995ء کے آپریشن کے موقع پر کراچی میں امن قائم کردیا تھا، پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں 300 کے قریب اچھے پولیس افسران شہید ہوگئے اور اُن کی اشک شوئی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسی بددلی کے ساتھ سندھ پولیس کو تخریب کاری سے نہیں نمٹ سکتی۔
سندھ پر کیا موقوف خود مرکز کے ادارے بھی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں بری، بحری اور فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہمارے پیارے نوجوان و افسران شہید ہورہے ہیں مگر سدباب نہیں کیا جاسکا۔ مہران بیس پر حملہ ہوا، کامرہ میں حملہ کرکے فضائی آنکھ صاب طیارہ کو تباہ کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی مستعدی یا انٹیلی جنس نظام میں بھرتی دکھائی نہیں دی۔ ایبٹ آباد کا سانحہ ہوگیا کوئی ردعمل سامنے نظر نہیں آیا۔ فضائی حدود کی انڈیا نے خلاف ورزی کی مگر اُن کو گرایا نہیں جاسکا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری تیاری کس قسم کی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں دیکھ لیجئے، ایف سی کے افسران توانا تو ہورہے ہیں مگر سیکورٹی حصار کے باوجود لڑکیوں کی بس پر حملہ ہوا اور بولان میڈیکل کمپلیکس نشانہ پر آیا۔ اس وقت پاکستان کے ادارے وہ منظر پیش کررہے ہیں کہ جس کا تذکرہ شیرشاہ سوری نے مغل افواج کو دیکھ کرکیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کا سیکورٹی نظام امریکہ کی دسترس میں ہے اور جس طرح وہ پاکستان کا ڈیٹا لیکر چلا گیا وہ بھی شرمناک بات ہے۔
تعجب ہے کہ ہم گوگل یا دوسرے قسم کے پیغام رساں ادارے کیوں جنم نہیں دے سکتے تاکہ وہ ڈیٹا یا ای میل جو امریکہ سے واپس ہو کر پاکستان آتی ہے یا پاکستان اور ملک بھیجی جائے تب بھی وہ امریکیوں کے ہاتھوں سے گزر کر جاتی ہے۔ وہ امریکہ کی بجائے پاکستان میں ہی رہے۔ میں نے بہت پہلے جب کامرہ، مہران اور جی ایچ کیو پر حملے نہیں ہوئے تھے کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے سارے اداروں کی جاسوسی کی جارہی ہے۔ ان کے آفس، ان کے سیف ہاوٴس محفوظ نہیں ہیں مگر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب صلاح عام ہے کہ جو کوئی بھی چاہے کرے۔ لگتا ہے پاکستان بغیر سیکورٹی چل رہاہے۔
تازہ ترین