• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی حکومت کو آئے ابھی صرف ایک مہینہ ہوا ہے۔ اس ایک مہینے کے دوران دہشت گردی کی 9 بڑی وارداتوں میں ایک سو چار سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔ یہ واقعات بہت ہی انوکھی قسم کے ہیں۔ اس میں 15 جون کو زیارت میں قائد اعظم کی ریذیڈنسی کو راکٹ حملوں سے تباہ کرنے سے پوری قوم کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ ہم قائداعظم کے پورے پاکستان کی کیا حفاظت کریں گے کہ چند مرلہ زمین اور اس میں بانی پاکستان کے زیر استعمال نادر ترین چیزوں کی حفاظت نہیں کر سکے۔ اسی روز کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج اسپتال اور ویمن یونیورسٹی کی بس پر حملے میں طالبات سمیت 27/افراد جاں بحق ہوگئے۔ 3جون کو خیبر پختونخوا کے رکن اسمبلی فرید خاں کو ڈرائیور سمیت قتل کردیا گیا۔ اسی طرح 18جون کو مردان میں ایک پٹرول پمپ مالک کے جنازے پر خودکش حملے میں35/افراد لقمہ اجل بن گئے ان میں ایک اور رکن صوبائی اسمبلی عمران مہمند بھی شامل تھے۔ اس کے تین دن بعد سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رکن ساجد قریشی اور ان کے بیٹے کواس وقت ٹارگٹ کرکے مارا گیا جب وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکل رہے تھے جبکہ اسی روز پشاور کی ایک مسجد میں خودکش حملے کے نتیجے میں15/افراد شہید ہوئے۔ چند روز پہلے سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقر جب گھر سے عدالت آنے کیلئے نکلے تو ان کے قافلے پر حملہ کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں دو رینجرز اور 6 پولیس اہلکاروں سمیت 9/افراد جاں بحق اور جسٹس مقبول سمیت کئی افراد شدید زخمی ہوگئے۔ ابھی بات رکی نہیں بلکہ حکومت کے اس ہنی مون پیریڈ میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر حملے میں 10 غیر ملکیوں سمیت ایک پاکستانی گائیڈ مارا گیا۔ اس واقعے نے پاکستان کے امیج کو بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر داغدار کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا مینڈیٹ لے کر ن لیگ نے حکومت بنائی ہے۔ بلوچستان کے نازک حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ن لیگ نے وہاں کے اصل نمائندوں کو وزارت اعلیٰ اور گورنر شپ سونپی لیکن دہشت گردوں نے نئی حکومت کا استقبال اپنے ہی انداز میں کیا۔ تو کیا سیکورٹی ایجنسیاں یہ نہیں جانتیں؟ ان کے ہوتے ہوئے اتنے بڑے واقعات ہونا کیا ان کی ناکامی نہیں؟ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا تو یہ کہنا ہے کہ سیکورٹی ادارے خود کام نہیں کرتے بلکہ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پھر حرکت میں آتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خفیہ اداروں میں ہم آہنگی ہونے کے بجائے مقابلے کا رجحان ہے، اس لئے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ن لیگ بڑے مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آئی ہے اور اس کے سامنے تین سب سے بڑے مسئلے ہیں ایک مسئلہ توانائی کا شدید ترین بحران دوسرا معیشت کی بدحالی اور تیسرا دہشت گردی کی خوفناک صورتحال ۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی ان تین مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح بنانے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس قدر توانائی کا بحران سنگین ہے اس قدر لوگوں کے صبر کاپیمانہ بھی لبریز ہو رہا ہے کہ فوری طور پر کوئی ریلیف کے آثار واضح نہیں اب تو عوام کو صرف یہ انتظار ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کس طرح کی توانائی پالیسی کا اعلان کرتے ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لئے بجٹ میں جس طرح کے اقدامات کئے گئے ہیں ان سے تو یہی تاثر سامنے آ رہا ہے کہ غریب عوام پر بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کے بجائے پھر اسی طرف رجوع کیا جارہا ہے۔
یہ تینوں بڑے مسائل ایسے ہیں جن کے لئے عوام کچھ نہ کچھ قربانی دینے کے لئے تیار بھی ہیں مگر صرف اس صورت میں جب کوئی واضح روڈ میپ ان کے سامنے پیش کیاجائے گا لیکن حالات تو کسی اور طرف کروٹ لے رہے ہیں مثلاً اچانک اس بات کا انکشاف ہونا کہ سابق پی پی حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوئس حکام کو 22 نومبر 2012ء کو یہ خط لکھا کہ حکومت پاکستان یہ مقدمات نہیں کھولنا چاہتی اور کیس کے ملزم صدر پاکستان ہیں جنہیں اس معاملے میں استثنیٰ حاصل ہے اور نیب ایس جی ایس کوٹیکنا کیس خارج کرچکی ہے اور احتساب عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ آصف علی زرداری نے قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ کیس 1997ء میں اس وقت کے نیب کے سربراہ میاں سیف الرحمن اور اٹارنی جنرل چوہدری فاروق کے تمام خطوط اور درخواستیں غیر قانونی تھیں اس لئے حکومت پاکستان انہیں واپس لیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل نے یہ جو انکشاف کیا ہے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف یہ جو خط سوئس عدالت کے سرکاری وکیل ڈاکٹر نکولس جیڈن کو لکھا گیا اس سازش میں سابق وزیر قانون فاروق نائیک، سیکرٹری قانون یاسمین عباسی اور راجہ پرویز اشرف شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کو تو یہ بتایا گیا تھا کہ سوئس حکام کو کیس کھولنے کا خط لکھا گیا تھا اور اسی کی بنیاد پر راجہ پرویز اشرف پر توہین عدالت کا جو کیس تھا اسے بند کردیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ خط لکھ کر عدالت عظمیٰ کا مذاق اڑایا ہے اور یہ نہ صرف توہین عدالت کی سنگین صورت ہے بلکہ اس پر اقتدار کے غلط استعمال سے ریاست اور اس کے اداروں کو دھوکہ دینے کے ضمن میں فوجداری ریفرنس بھی دائر کیا جاسکتا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حضرات پر فوجداری مقدمات قائم کرکے تحقیقات کرائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا خط صدر کی آشیر باد کے بغیر لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ موجودہ حکومت کو عوام نے اس لئے بھی مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائے گی۔ گو حکومت نے دو رکنی انکوائری کمیٹی بنا دی ہے اور سفارت خانے کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں، اس کیس کے لئے وکلاء کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے جنرل پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے نہ صرف اعلان کیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ جواب بھی داخل کردیا ہے کہ اس مقدمے کیلئے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دے کر تحقیقات کرائے گی۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اچھی شہرت کے افسران سے تحقیقات کرائی جائے۔ پورے کیس میں غیر جانبداری نظر آئے۔ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے حوالے سے پارلیمینٹ میں موجود تقریباً تمام جماعتوں نے وزیراعظم نوازشریف کے اعلان کی تائید کی ہے گومشرف کے وکیل کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کو انصاف کی توقع نہیں۔ اسی طرح بعض افراد اس مقدمے کے حوالے سے یہ شور مچا رہے ہیں کہ اس سے اداروں کے درمیان تصادم ہوگا، پنڈورا باکس کھلنے سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا اور ایک موقف یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف ادارے مستحکم ہوں گے بلکہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام مضبوط ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے تو بعض افراد کی طرف سے پنڈورا بکس کھلنے کی دھمکیوں کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ نتائج کیا ہوں گے اب آئین اور قانون کا بول بالا ہوگا اور فیئرٹرائل کے لئے موکل جس طرح کے اقدامات چاہتا ہے وہ بتا دیئے جائیں۔ ابھی صرف ایک مہینے کی حکومت اور ایسے ایسے مسائل کا سامنا… وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لئے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر کی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ تمام صوبائی حکومتوں کی مدد حاصل کرے اور ان کو ضروری تعاون فراہم کرے اور یہ سب کرتے ہوئے میرٹ اور غیر جانبداری اور ہر چھوٹی سی چھوٹی احتیاط کے ساتھ چلے تو انشاء اللہ ہر بحران سے نکل جائے گی نہیں تو اپنے ہی مینڈیٹ تلے دب کر رہ جائے گی اور پھر اس ملک میں جمہوریت کبھی بھی پنپ نہیں سکے گی۔ پہلے مہینے میں ایسی باتیں اچھا شگون نہیں۔
تازہ ترین