• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک اور عوام کی ضروریات، ترجیحات کو پیشِ نظر رکھ کر سال بھر کیلئے بنایا جانے والا گوشوارہ بجٹ کہلاتا ہے، جو ہر حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے بھی کہ اس سے حکومتی کارکردگی عیاں ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اس نے عامۃ الناس کو کیا آسودگی فراہم کی۔جمعۃ المبارک کے روز حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا تو حسبِ معمول اپوزیشن تیار بیٹھی تھی، جس کی طرف سے اس قدر زور دار احتجاج سامنے آیا کہ تصادم کا خدشہ پیدا ہونے پر اسپیکر نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کر لیا۔ شورشرابہ اتنا تھا کہ وزیرخزانہ کی تقریر ہی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس پر یہ سوال بجا تھا کہ اپوزیشن، جس نے نہ بجٹ دستاویز پڑھی اور نہ تقریر سنی، کس بات پر ہنگامہ برپا کر رہی تھی؟ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا یہ بیان بھی بڑا باوزن ہے کہ کچھ پڑھے سنے بغیر اپوزیشن کا اعتراض انتہائی غیرسنجیدہ اور تنقید برائے تنقید کی ذیل میں آتا ہے، اپوزیشن اپنی تجاویز کرے، بہتر اور سودمند تجاویز کو بجٹ میں شامل کر لیا جائیگا۔ دوسری جانب اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ حکومت نے بجٹ کے حوالے سے این ایف سی ایوارڈ بھی میں صوبوں کا حصہ طے کیے بغیر بجٹ بنایا جو غیر آئینی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بجٹ کے ضمن میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کے موقف کی غیرمشروط حمائت کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بجٹ میں بات ترقی کی کی جا رہی ہے جبکہ غریب کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہے، بے روزگاری کے خاتمے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا کہ غریب کی بھوک مٹ سکے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20فی صد اضافہ کیا جانا چاہئے تھا۔ حکومت بجٹ پیش کرچکی جو اسمبلی میں زیرِبحث آکر منظوری کی سند پائے گا، احسن رویہ یہ ہے کہ حکومت اب بھی اپوزیشن کی تجاویز سننے اور انہیں بجٹ میں شامل کرنے پر آمادہ ہے، تو پھر کیا یہ بہتر عمل نہیں کہ افہام و تفہیم سے عوام کی بہتری کیلئے اقدامات کرتے ہوئے ملک و قوم سے محبت کا ثبوت دیا جائے۔

تازہ ترین