• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی کیلئے اتنی مال و زر کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی قوتِ ارادہ اور محنت کی ہوتی ہے۔ جو افراد یا اقوام ترقی کی منزلوں کو چھونے کے خواب دیکھتی ہیں وہ جاگتے میں محنت کے فیشن سے مزین ہوتی ہیں۔

کیا ہی عجیب بات ہے کہ ہم نقال مغرب کے ہیں مگر تساہل دیسی، بل گیٹس سا خاص ہو یا عام مغربی سبھی اپنا کام خود کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں دو آنے کمائی آ جائے تو نوکر چاکر چاہئیں۔ اور تو اور دو لفظ لڑکی نے کیا پڑھ لئے ماں کی خواہش ہوتی ہے بستر ہی پر اس کے پاؤں دھلوائے اور باپ کوئی نوکر ڈھونڈ لائے، نہ جانے لڑکی نے حقوق کے حصول کی کون سی پٹی پڑھ لی اور کتاب سے وہ سارے اوراق پھاڑ ڈالےجو ادائیگی فرائض کی بولی بولتے تھے۔ اب ایسی تعلیم اور ڈاکٹری و ماسٹری و کلاکاری کے کیا فائدے جس میں تربیت کے پھیکے رنگ بھی دکھائی نہ دیں؟

دوسری جانب بیٹوں کے اس رنگ روپ کی بھی بھرمار ہوگئی ہے کہ اپنے تساہل کو چھپانے،اپنی کم سنی کا جائزہ لینے، اپنی ساکھ کو بحال کرنے حتیٰ کہ اپنے آئی کیو کی گروتھ کے بجائے شبانہ روز یہی سعی فرما رہے ہوتے ہیں کہ قصور بڑوں کا ہے یا پہلی نسلوں کا ، جو ضرورت سے زیادہ سیانے ہوں وہ سیدھا والدین ہی پر الزام دھرتے ہیں، یہ نہیں کہ والدین کا قصور نہیں ہوتا یقیناً ہوتا بھی ہے، مگر لائق اولاد کو کم اور نالائق اولاد کو زیادہ نظر آتا ہے۔

نفسیاتی الجھنیں کچی لسی کی سی ہیں جتنی چاہے بڑھاتے جائیں مگر اس زندگی میں جتنی آسانیا ں اور سادگی رکھیں یہ اتنی ہی دلکش ہے اور جتنی پیچیدگیاں لائیں جینا اتنا ہی محال ہوتا جائے گا۔ کورونا کی عالمی وبا میں لوگ جتنا گھروں پر رہے یا عبادتوں میں جتنا بھی مگن رہے اب بعد از کورونا خدشہ یہ کہ کہیں آزادی اور فنکاری شتر بے مہاری کے دریچے نہ کھول دے، وہ معاشی و معاشرتی بندشوں کا حساب کتاب ماہ و سال میں پورا کرنے کے بجائے دنوں میں پورا کرنے نہ بیٹھ جائیں اس سے یقیناً بگاڑ کا در وا ہوگا معاشرتی بناؤ کا ہرگز نہیں۔

جائزہ کی ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اگرچہ ہم نوجوانوں کا کم و بیش 64 فیصد رکھتے ہیں یعنی اس میں 30 سال سے کم عمر کے افراد شامل ہیں، جو عالمی سطح پر ریکارڈ ہے اور ہم پہلی پوزیشن پر۔ ان 64 فیصد میں 15 سال سے 29 سال کی عمر کی شرح پاکستان میں 29 فیصد ہے، مطلب تندرست و توانا لوگ۔ اس 64 فیصد میں جو 15 سال سے کم ہیں یہ وہ تیار کھیپ ہے جو آئندہ کڑیل جوان یعنی 15 سے 30 سال کی عمر میں داخل ہونے والے ہیں یہ 35 فیصد بنتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں یہ جوانی ابھی دیر تک چلنے والی ہے۔ اس نعمت کا فائدہ تو تب ہے کہ اس جوانی کا شباب سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق و جستجو پر بھی آئے کیونکہ سائیکالوجیکل اور بائیالوجیکل صداقت عامہ تو یہی ہے کہ کم ازکم یہ 29 فیصد لوگ پیرا سائٹس تو نہیں ہونے چاہئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس 64 فیصد میں اقبال کے شاہین کتنے ہیں اور شمع کتنے؟ رزقِ حلال اور صدقِ مقال کے علاوہ 'عمل سے زندگی بنتی ہے کا سبق یاد اور خودی کا جمال اور خدا شناسی کا کمال کتنا ہے؟ 'بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو کتنے لوگوں کو یاد ہے؟ سچ تو یہ ہے اپنے اسلاف سے جو انمول ورثہ پایا تھا اسے شومئی قسمت اور شامتِ اعمال کے نتیجے میں گنوا دیا یا نہیں؟

وقت کے ہر شاطر نے اپنے اپنے حساب اور ضرورت کے مطابق مفید نوجوان کا استعمال ازل سے کیا اور جس بچے یا نوجوان کو اسکول، ہنر یا ریسرچ کی دہلیز پر لانا تھا اسے اندھے کنویں میں پھینک دیا کہ نہ کوئی تحقیق کی راہ پر چلے نہ سچ اور فریب کی سیاست میں فرق پہچان سکے اور نہ تاریخ کھنگال کر پرانی سامراجیت اور حالیہ آمرانہ و شاطرانہ رنگ و روپ میں تمیز کرسکے۔ گھر کی چوکھٹ سے ایوانوں کی دہلیز تک بچوں اور نوجوانوں کو یا تو ہم نے بےجا لاڈ پیار کی دلدل میں پھینکا یا نظر انداز کرنے والے رویے کی آنچ پر رکھا، حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر 'ورک ضرور کیا عمل نہیں، روزگار کے جھانسے جمہوریت پرستوں نے دئیے اور انصاف کے آمروں نے۔ بجٹ کے اعداد و شمار سے منشوری جھانسوں تک جس لیڈر کے ہاں قول و فعل میں تضاد ہے وہ کوڑھ کی کاشت کو بڑھوتری دینے والے کے سوا کچھ بھی نہیںاور جوانوں کی زندگیوں کو بےثمر کرنے میں وہ بھی پیش پیش ہے۔ نکتہ ایک یہ بھی ہے کہ، ملکی سطح پر جوانوں کے ایکوسسٹم کو موثر بنانے میں بہرحال بزرگوں سے زیادہ لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے۔

لیکن اب یہ طے ہوچکا کہ اس گلوبل ویلیج میں جہاں میڈیا تک ہر بچے بوڑھے کی رسائی ہے وہ باوجود اس کے اندھیروں بےعملی اور بےراہ روی میں رہنا چاہتا ہے تو وہ خود سوزی کے درپے ہے، یہ کوئی تعلیم یافتہ ہے یا سیاسی و مذہبی رہنما معاشرتی و معاشی پیراسائٹ ہے، تساہل پسند ہے سلیپنگ مینجمنٹ کے فقدان کا حامل ہےہیلتھ اسپیشلسٹ ہے تو اسکلز سے دور ہے انجینئر ہے تو کرپٹ تعمیر ساز ہے، نوجوان سیاستدان ہے تو پتھر کے دور کی پوجا کرتا اور کرواتا ہے،قانون دان ہے تو قانون شکن ہےنوجوان افسر ہے تو حرص کا دلدادہ ہے، طالب علم ہے تو کھوج سے پرے اور تہذیب سے دور تو پھر یہ خود دیکھ لیں یہ کرگس کے جہاں والے ہیں یا شاہیں کے؟ یہ تعمیر ساز ہیں یا تخریب کار ؟ یہ وطن کی شادابی ہیں یا کوڑھ کی کاشت؟ پانی تو سیراب کرتا ہے اور خوشبو معطر،سورج کی کرنیں ہیں تو چاند کی چاند، علم دانائی و حکمت، ادب دماغوں کی ڈھال، طب مسیحا، استاد معمار،سیاست دان نگہبان خلق خدا اور جوان بناؤ کا شباب۔ ان چیزوں اور ان کے اعمال میں گڑبڑ ہو نہیں سکتی اگر یہ اصلی ہیں۔المختصرہر معاشرہ کے کوچہ و بازار میں سرعام ایک کسوٹی پڑی ہوتی ہے جن کے نوجوان اور جوان آتے جاتے اپنے آپ کو اس پر پرکھتے ہیںوہی معاشرے، وہی اقوام اور وہی افراد سربلند نظر آئےسرنگوں نہیں۔ جانے اس سمع خراشی اور صریر خامہ کو میرا جوان کتنا دل پر لے یا دل سے لے تاہم جون ایلیا نے خوب کہا:

دل کہ آتے ہیںجس کو دھیان بہت

خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

تازہ ترین