• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئےجانے والے معاشی اعداد و شمار پر ملک کے سنجیدہ حلقوں میں خاصی بحث جاری ہے۔ اپوزیشن اسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا قرار دے ر ہی ہے۔اگر حکومت کے معاشی ترقی کے دعوئوں میں کچھ بھی جان ہوتی تو عام آدمی کے حالات میں بہتری واضح طور پر دکھائی دیتی۔ یہ کیسی معاشی ترقی ہے جو خوردبین سے بھی دکھائی نہیں دے رہی؟صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ مہنگائی بے قابو ہوچکی ہے، مافیا زنے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں بجلی کا شدیدبحران ہے۔ شارٹ فال 5ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرچکا ہے۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں بد ترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ بجلی کی پیدوار 19ہزار میگاواٹ ہے جبکہ طلب 24ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ عوام شدید گرمی میں سراپا احتجاج ہیں۔ لگتا ہے کہ بجلی کے بحران، مہنگائی اور دیگر عوامی ایشوز سے حکومت عملاً لاتعلق ہو چکی ہے اور اسے عوامی جذبات او ر احساسات کی کوئی پروا نہیں ۔لمحہ ٔفکریہ ہے کہ ایسی حکومتی بےتوجہی ماضی میں کبھی نظر نہیں آئی۔حالات دن بدن خراب تر ہو رہے ہیں۔وفاقی بجٹ سے وابستہ عوامی توقعات اگر پوری نہ ہوئیں تو حکمرانوں کاانجام بھی ماضی کے حکمرانوں جیسا ہوگا۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ جو حکومت ترقیاتی بجٹ کا نصف بھی خرچ نہ کرسکے ‘وہ بھلا ملکی ترقی و خوشحالی میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ تشویش ناک امرہے۔ حکومتی بجٹ سے قبل ہی ٹیکسوں کی بھر مار کردی گئی ۔ بجلی کا ٹیر ف بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ دو سال میں بجلی کی قیمتوں میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ معیشت تباہ حال، عوام بیروزگار ہو رہے ہیں۔ ملک میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معیشت کو مضبوط کرنےکے لئے ضروری ہے کہ 22کروڑ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے۔کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں جو حکومت نے پور ا کیا ہو۔ تبدیلی کی دعویدارحکومت نے ملک و قوم کا حلیہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ایک طرف عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بیڈگورننس پر نوحہ کناں ہیں تو دوسری جانب حکومت کی کارکردگی نے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ چند روز قبل سندھ کے قصبے ڈھرکی میں المناک ٹرین حادثے نے ریلوے کے ناقص نظام پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان میں ٹرین حادثات اب معمول بن چکے ہیں۔گزشتہ پانچ سال میں ٹرین حادثات میں سینکڑوں جانیں لقمۂ اجل بن گئیںمگر ان حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ طرفہ تماشا یہ ہےکہ وقتی طور پر تحقیق کا حکم دے دیا جاتا ہے مگر قوم کے سامنے ذمہ داران کو کبھی نہیں لایا جاتا۔ موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں کئی ٹرین حادثات ہوچکے ہیں جن میں 300سے زائد قیمتی جانیں چلی گئیں۔بدقسمتی سے موجودہ و سابقہ حکومتوں نے حادثات کی ذمہ داری ہمیشہ گزشتہ حکومتوں پر عائد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ با اثر لوگ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر کے بچ جاتے ہیں۔ ڈھرکی ٹرین حادثے کو اب ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔

اب کچھ تذکرہ ہو جائے ایک اور اہم ایشو قومی زبان اردو کا! سرکاری تقریبات میں اردو زبان بولنے کے حوالے سے حکومتی اعلامیہ خوش آئند امر ہے۔اس قسم کے اقدامات ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی کئےجاتے رہے ہیں مگر بد قسمتی سے ان پر عمل در آمد نہیں ہوا۔ اردو زبان کی ترویج کیلئے حکومتی سطح پر مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 74برس ہو چکے ہیں، لیکن آج بھی ہماری دفتر ی زبان انگریزی ہی ہے۔ قومی زبان کی ترویج کے بغیر کوئی ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتا۔ ایسی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی تہذیب، ثقافت اور قومی زبان کو اہمیت دیتی ہیں۔ پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری زبان کی طور پرنافذ کرنے کے حوالے سے عدالت نے حکم نامہ بھی جاری کر رکھا ہے، مگر اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ خدشہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری اعلامیہ بھی بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی کی نذر ہوجائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ باقاعدگی سے مانیٹرنگ کی جائے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہئے۔ قوم نے انگریزی کی غلامی سے جان تو چھڑالی مگر انگریزی نظام سے آج تک جان نہیں چھڑائی جاسکی۔ آج بھی ایسے افراد ہم پر مسلط ہیں جو انگریزوں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے پھرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ قومی زبان اردو کو سرکاری طور پر رائج کیا جائے تا کہ ہم ایک باوقار قوم بن کر دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔

تازہ ترین