• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیبر پختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے سینئر وزیرخزانہ سراج الحق صاحب کی تقریر کی روداد اخبارات میں پڑھ کر یوں محسوس ہوا جیسے اسمبلی میں نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک کاشغر امہ کی بات کرنے والے کے بجائے اے این پی کا کوئی وزیر اسلام آباد کو للکار رہا ہو۔ آپ نے فرمایا ”ہم وفاق سے خیرات نہیں صوبے کا حق مانگتے ہیں، مرکزی حکومت کالا باغ ڈیم کے پیچھے نہ پڑے اگر مرکز یا اس کی بیوروکریسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ صوبے کے حقوق دبا لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، ہم اپنے صوبے کی بجلی کے خالص منافع کی رقم لے کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مادری زبان میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے حامی ہیں“۔ ایک زمانے سے پاکستانی سیاست میں مختلف اصطلاحات کی طرح قوم پرست اور بنیاد پرست کی اصطلاحات بھی مستعمل ہیں۔ اول الذکر کے معنی تو واضح ہیں۔ بنیاد پرستی کے حوالے سے مذہبی رہنما اس کے معنی راسخ العقیدہ یعنی بنیادی عقائد پر جس نظریئے کی عمارت استوار ہو، بتاتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ اصطلاح ان مذہبی جماعتوں کیلئے استعمال ہوتی ہے جو قوم، زبان، نسل، صوبے اور ایک معنی میں ملک کے بجائے سارے جہان کے مسلمانوں کا درد اپنی جان و سیاست میں سموئے ہوئے ہوں۔ مخالفین اسے ان جماعتوں یا عناصر کیلئے استعمال کرتے ہیں جو قدامت پرست رجعت نواز یعنی ترقی مخالف ہوں۔ پاکستان میں ایسے امور پر ہمیشہ اختلاف رہا۔ یہاں تو اسلام بھی ہر جماعت کا اپنا اپنا ہے چہ جائیکہ کسی اصطلاح پر ”اجماع امت“ کی بات کی جائے!! البتہ جماعت اسلامی اس حوالے سے معروف ہے کہ یہ قومیت، زبان، نسل‘ صوبے یا علاقے کے بجائے ہمیشہ ملک و ملت کی بات کرتی ہے بلکہ قوم پرستوں کو صوبائی ایشو اجاگر کرنے پر لعن طعن کرنے کا فریضہ بھی انہوں نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ جماعت ہر حوالے سے ترقی پسند قوم پرستوں کے طرز فکر کی مخالف ہے، یہاں تک کہ جب ترقی پسند قوم پرست ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگا رہے تھے تو اس جماعت کی پالیسیاں امریکہ کی مددگار ثابت ہوئیں یہاں تک کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں جماعت اسلامی اور امریکہ شانہ بشانہ تھے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان کی آبادی اور خطے میں انتہا پسندوں کے خاتمے کے نام پر جب امریکہ یہاں وارد ہوا تو یہ جماعت قوم پرستوں و ترقی پسندوں کے نعرے ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے“ مستعار لئے سڑکوں پر نکل آئی۔ جب ترقی پسند قوم پرست یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی مخالفت کررہے تھے تو یہ ان آمروں کی ہم پیالہ و ہم نوالہ تھی۔ شاید تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی انہی گیتوں پر طبع آزمائی کررہی ہے جو ایک عرصے سے پختون قوم پرست بالخصوص اے این پی گاتی رہی ہے۔ ” خپلہ خاورہ خپل اختیار“ (اپنی دھرتی پر اپنا ہی اختیار) اس سریلے نغمے کا مطلع ہے۔
سراج الحق صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے، بجلی پختونخوا کی پیداوار ہے، منافع بھی ہم ہی لیں گے۔ اس حق شناسی پر طالب علم کو علم سیاست کے بے بدل استاد خان عبدالولی خان مرحوم یاد آگئے۔ آپ کے انتقال پر نماز جنازہ سے قبل پشاور کے ایک ہوٹل میں بیٹھا پشتو چینل پر مرحوم کی یاد میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا۔ صدر آصف زرداری کے بے باک اور کھرے ترجمان فرحت اللہ بابر صاحب گویا تھے ”یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ تربیلا کی بجلی کی رائیلٹی خان عبدالولی خان ہی کی وجہ سے صوبے کو مل رہی ہے کیونکہ خان صاحب نے 1973ء کے آئین پر دستخط کے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ جو قدرتی وسائل جس صوبے میں پیدا ہوتے ہیں اس کی آمدن بھی اس صوبے کو ملنی چاہئے، جس کے باعث گیس کی رائیلٹی بلوچستان سندھ کے وسائل کی رائیلٹی سندھ اور بجلی و دیگر وسائل کی رائیلٹی پختونخوا کے حصے میں آئی، یہی فارمولا تمام قدرتی وسائل کے لئے طے ہوا۔“… خان عبدالولی خان صاحب کو خدا بزرگ و برتر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ جماعت اسلامی کے وزیر بجلی کے جس خالص منافع کی بات کررہے ہیں یہ وہی ہے جس کا بندوبست خان عبدالولی خان نے 1973ء کے آئین میں کردیا تھا۔برائی کی تقلید برائی ہے، اچھائی کی تقلید اچھے لوگ ہی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اور جماعت اسلامی یقیناً اس امر پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ صوبے کے حقوق کی بات کررہے ہیں۔
بجٹ میں اے این پی حکومت کے 906 ترقیاتی اسکیموں کو جاری رکھنے کیلئے 53 فیصد حصہ رکھا گیا جبکہ 42 فیصد نئی اسکیموں کے لئے مختص کردیاگیا ہے۔ اس فیصلے سے جہاں نئی حکومت کی وسعت نظر اور بالغ فکری نمایاں ہوتی ہے تو وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اے این پی کی حکومت نے کیا بے مثال وژن کے ساتھ ہوم ورک کے بعد ان منصوبوں کو جاری کیا تھا۔
میرا گمان ہے کہ جس طرح آج ہم بجلی کی رائیلٹی کی وجہ سے خان عبدالولی خان کو یاد کررہے ہیں ہوسکتا ہے مستقبل میں امیر حیدر ہوتی کو اپنے پانچ سالہ دور میں قابل رشک ترقیاتی منصوبوں اور جناب اسفند یار ولی خان کو صوبے کو پختونخوا کا نام دیئے جانے سمیت 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری پر بھی یاد کیا جائے۔ بجٹ تقریر کے دوران جناب سراج الحق نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے وفاق کو للکارتے ہوئے کہا کہ مرکز اس منصوبے سے باز رہے۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ماضی کے موقف سے ہر کوئی آگاہ ہے، حالیہ موقف سے لگتا ہے کہ یہ جماعت یا ان کی حکومت جیسے اے این پی کے ایک ایک نقش پا پر گامزن ہو۔ کالا باغ ڈیم کے خلاف رائے ہموار کرنے بلکہ اسے تاحال روکے جانے کا سہرا بھی اے این پی کے سر ہے۔ ضیاء الحق صاحب کے دور میں جب اس منصوبے پر کام کے آغاز کیلئے کمر کس لی گئی تو ایک پختون انجینئر نے اس کے مضمرات سے گورنر‘ جنرل فضل حق کو آگاہ کیا۔ ڈیم کو ضرر رساں تسلیم کئے جانے کے باوجود وقت کے اس طاقتور گورنر نے کچھ کرنے سے معذوری ظاہر کی، البتہ انجینئر کو مشورہ دیا کہ وہ اتمانزئی جاکر باچا خان کو صورتحال سے آگاہ کرے۔ قصہ مختصر جب باچاخان نے یہ یقین کرلیا کہ یہ منصوبہ فائدہ سے زیادہ نقصان کا حامل ہے تو پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود چارپائی سے اٹھے، چادر کندھے پر ڈالی، ٹرین میں بیٹھ کر کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچ گئے۔ قوم پرست و ترقی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں، یہاں سے بذریعہ بولان میل کوئٹہ روانہ ہوگئے، پھر پورے ملک میں دمادم مست قلندر ہونے لگا۔ بعد ازاں تحریک کے جوبن پر ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جناب خان عبدالولی خان اور محترم محمود خان اچکزئی بڑے جلوس کی شکل میں پشاور سے پنجاب کی سرحد پر پہنچے تو دوسری طرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ہزاروں لوگ سندھ سے متصل پنجاب کی سرحد اباڑو پر کالا باغ ڈیم کے خلاف مورچہ زن تھے۔ کالا باغ ڈیم کے تازہ شوشے سے قطع نظر کہنا یہ مقصود ہے کہ کالا باغ ڈیم کیخلاف اعلان جنگ کرکے جیسے پختونخوا حکومت نے حضرت باچا خان کی اس تحریک کی یاد تازہ کردی جس سے جماعت اسلامی ہمیشہ باہر رہی۔ اب اگر پختونوں کی خواہشات کے عین مطابق جماعت اسلامی کی قیادت نے انگڑائی لے لی ہے تو انہیں یہ طعنہ نہیں دیا جاسکتا کہ ان کا مینڈیٹ تو کالا باغ ڈیم وغیرہ کے چکر میں الجھنا نہیں تھا کہ یہ تو اے این پی کا درد سر ہے، وہ تو ڈرون گرانے، نیٹو سپلائی بند کرانے، اسلامی نظام قائم کرنے، بم دھماکے رکوانے اور امریکہ کو مار بھگانے کے وعدوں پر قوم سے ووٹ لے کر آئی تھی اور جماعت اسلامی کے ”گو امریکہ گو“ مہم کا ماحصل بھی یہی تھا…!!
بہرکیف قوم پرستوں کو بھی جماعت والوں کا احسان مند ہونا چاہئے کہ حکومت میں یہ جماعت وہی کچھ کررہی ہے جو قوم پرست حکومت میں ہونے کی صورت میں کرتے۔
تازہ ترین