• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گزشتہ کالم ”اللہ کے آئین سے غداری پر عام معافی“ پر محترم مولانا طارق جمیل نے فون کیا۔ مجھے دعائیں دیتے ہوئے (جن کی اس گنہگار کو بہت ضرورت ہے) انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلے پر اور بہت کچھ لکھا جانا چاہیے۔ سود کے لعنت کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے مطابق سود مال کو گھٹاتا ہے اور صدقہ مال کو بڑھاتا ہے۔ انہوں نے سود کی وجہ سے مغرب کی معیشت اور بنکنگ سیکٹر کی مشکلات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ سود لاکھوں کروڑوں افراد کے گھروں کے چولہے بجھا دیتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سود کو اپنے اور اپنے رسولﷺ کے خلاف جنگ گردانا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی دوسرے گناہ بشمول شرک کے متعلق اتنی سخت بات نہیں کی۔ مولانا ایک صاحب علم اسلامی اسکالر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی بات میں بھی اثر رکھا ہے اور لاکھوں لوگ اُن کو سننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں نے مولانا سے کہا کہ مولانا آپ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب سے کیوں نہیں ملتے اور انہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھاتے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ وہ تبلیغ کے سلسلے میں مراکش جا رہے ہیں اور رمضان المبارک کے شروع میں واپس تشریف لے آئیں گے جس کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش کریں گے تاکہ سود کے خاتمے کے سلسلے میں میاں صاحب سے بات کی جا سکے۔ میں حکومت سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ مولانا طارق جمیل صاحب کی وزیراعظم سے جلد ملاقات کا انتظام کریں۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ حکمرانوں کا ایمان اقتدار اور حکومت ہوتا ہے مگر اس کے باوجود میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وزیراعظم صاحب کے دل میں وہ بات ڈالے جو سود جیسی لعنت کے خاتمے کا سبب بن سکے،آمین۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلمان ہوتے ہوئے اور یہ جانتے بوجھتے کہ سود کتنا بڑا گناہ ہے اور یہ کہ یہ وہ لعنت ہے جس کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جنگ ہے، ہم ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں سود کے کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے حالیہ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ (ایک ہزار ایک سو چووون ارب روپیہ Rs 1154 billion) صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے، ہم اس لعنت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ سود کے لیے بجٹ میں مختص کی گئی اس خطیر رقم سے 90% رقم کی ادائیگی مقامی بنکوں کو کی جائے گی۔ بیرونی قرضوں کا توحال سب کے سامنے ہے ۔ وزیر خزانہ کے مطابق حکومت آئی ایم ایف سے اربوں ڈالرز کے قرضے لے کر آئی ایم ایف کو ہی پرانے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے سلسلے میں واپس کر دے گی یعنی ہم جتنا پیسہ اپنے ہی بنکوں کو سالانہ سود کے طور پر ادا کرتے ہیں وہ پاکستان کے دفاع کے ٹوٹل اخراجات سے زیادہ ہے۔ سود کی یہ رقم پاکستان بھر میں ترقیاتی اسکیموں، ڈیموں، سڑکوں، اسپتالوں، تعلیم، صحت وغیرہ کے مجموعی اخراجات سے زیادہ ہے یعنی ہم سود کی لعنت پھیلانے والے بنکوں کے ہاتھوں پاکستان کے عوام کا استحصال بھی کروا رہے ہیں اور ان بنکوں کے مالکان کے منافع کے لیے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے جنگ کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے بنکوں میں لوگوں کی تقریباً 6500 /ارب پڑے ہیں۔ عوام کے اس پیسے کو بنک حکومت کو قرضے پر دے کر نو سے دس فی صد سود وصول کرتے ہیں جبکہ بنک میں پیسہ رکھنے والوں کو چھ فی صد تک سود ادا کیا جاتا ہے۔اسلام کے مطابق سود استحصال اور ناانصافی کی بدترین صورت ہے۔ اپنے بجٹ کو دیکھیں، آئی ایم ایف کے قرضوں کا حال سنیں تو اللہ کی وہ بات کہ سود مال کو گھٹاتا ہے پاکستان اور پاکستان کی سودی معیشت پر کس قدر پوری اترتی ہے۔ مگر ہم پھر بھی اس لعنت کے خاتمے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کر رہے۔ میں نے کتنے کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کو سود کی وجہ سے روتے دیکھا۔ اُن کا حال بھی پاکستان جیسا ہے کہ بنکوں سے پیسہ لو تاکہ پہلے لیے گئے قرضوں پر لگے سود کی ادائیگی کر سکو۔ کتنے کاروباری افراد سود کی وجہ سے کھوکھلے ہو گئے، اُن کا سب کچھ لٹ گیا۔ آپ کریڈٹ کارڈ لے لیں اور اگر کبھی آپ کی ادائیگی میں دیر ہو جائے تو دیکھیں بنک آپ کا کیا حال کرتے ہیں۔ مشرف دور کے پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے اُسی دور میں گھر کے لیے ایک حکومتی بنک سے قرضہ لیا۔ بنک نے اُن کو سود میں کچھ رعایت دی۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں ڈوگر صاحب سے اُن کے چیمبر میں ملا اور سوال اُٹھایا کہ کیا اُن کے لیے مناسب تھا کہ وہ بنک سے سود کی شرح میں رعایت کراتے۔ اس پر ڈوگر صاحب جو اُس وقت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجماں تھے نے مجھے کہا کہ وہ تو قرضہ لے کر پھنس گئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ ہر ماہ قسط پر قسط دیئے جا رہے ہیں مگر اصل رقم وہیں کی وہیں ہے اور سود ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ڈوگر صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کی کوشش ہے کہ وہ اپنا قرضہ کسی اور کو دے دیں تاکہ اُن کی سود سے جان چھوٹ سکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈوگر صاحب کے ساتھ بعد میں کیا ہوا مگر سود پاکستان کی معیشت کو تباہ اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھا رہا ہے۔
تازہ ترین