• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

صدیوں کی تھکن

’’افسانۂ ہستی کا حسیں باب ہے عورت…‘‘ شمارہ کھولتے ہی گویا رنگ و بُو کے ایک طوفان نے گھیر لیا۔ آپ کی یومِ خواتین کی نمائندہ تحریر علامہ اقبال کے آفاقی مصرعے ’’وجودِ زَن سے تصویرِ کائنات میں رَنگ‘‘ میں سمٹے ہوئے ہر رَنگ کی خُوب صُورت عکّاسی کر رہی تھی۔ زندگی کے ساز پر چِھڑی اس غزل کی نازک خیالیوں، رنگینیوں سے لے کر مستحکم معاشرے کے لیے عورت کے کردار کی مسلّمہ اہمیت تک کہ ’’وہ صرف حقوق ہی نہیں مانگتی، فرائض نبھانا بھی جانتی ہیں‘‘۔ گویا دو ہی جملوں میں آپ نے عورت کے ایثار و قربانی کی پوری داستان سمیٹ کر صدیوں کی تھکن اُتار دی۔ ماشاء اللہ کیا قلم کی روانی ہے۔ ہر لفظ کِھلے پُھولوں کی خُوشبو سے مہکتا، کوئی ملاوٹ، کوئی کھوٹ نہیں۔ ’’یومِ خواتین‘‘ کے نعرے ’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ‘‘ کے تحت ڈاکٹر سمیحہ نے بھی کیا اُجلی نکھری تحریر بصارتوں کی نذر کی۔ ’’تذکرۂ صحابیاتؓ‘‘ میں انصار کی پہلی مسلم خاتون، اُمِ سلیمؓ کا تذکرہ رُوح گرما گیا۔ شفق نے گھر کی چاردیواری سے باہر عورت کی حُکم رانی کا دَر کھولا۔ بےشک، ماضی ہو یا عہدِحاضر، مَردوں کےشانہ بشانہ خواتین لکھاریوں نے اپنے قلم سے اُردو اَدب کو مالا مال کیا۔ اَدب کی راہ گزر پہ سلمیٰ اعوان سے ملاقات نے بہت تازہ دَم اور محظوظ کیا۔ بہرکیف، حالات و واقعات کا جائزہ لیتےلیتے، خطوط کی بزم سے آسودگی حاصل کرتےاس نتیجے پرپہنچےکہ بے شک قوم کے تعمیری ڈھانچے میں، ملازم پیشہ خواتین ہوں یا ہوم میکر، سب ریڑھ کی ہڈّی کے مترادف ہیں۔ تبھی تو وہ اپنی تخلیق پر نازاں ہیں کہ ؎ اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

گلگت، کشمیر کے قارئین

ایک بار پھر حاضرِ خدمت ہیں۔ اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم خیر و عافیت سے ہوگی۔ اٹھارہ اپریل کی دوپہر میگزین گھر کا مین گیٹ پھلانگ کر، گھر کے پھنّے خان کے ہاتھوں میں آچکا تھا، مگر اس بار ہم نے صبر و برداشت کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالا اور اپنی جگہ جوں کے توں بیٹھے رہے، تو میگزین ڈھائی بجے خودبخود ہمارے ہاتھوں میں آگیا۔ جیسے لوگ موبائل ڈیٹا آن کرکے واٹس ایپ اور فیس بُک چیک کرتے ہیں، اِسی طرح ہم نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کھول کر چٹھی چیک کی۔ جلدی جلدی خطوط نگاروں کے نام دیکھے۔ دماغ نےپیغام بھیجا، ’’دیئر اِز نو اسما اینڈ نو راجا، سو، آگے بڑھیے‘‘۔ ’’متفرق‘‘ میں چار مفلوج بچیوں کا احوال پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ اللہ انہیں شفا دے اور ان کےحالاتِ زندگی بہتر کرے۔ منور مرزا سراپا سوال تھے کہ مودی حکومت سے دوستی ممکن ہے…؟ بھئی، محبِ وطن پاکستانیوں نے ظلم و جبر کرنے والوں پر دوستی کے دروازے بند کر دیئےہیں۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘میں ماڈل نے مجموعی طور پر اچھی ماڈلنگ کی، سوائے دو تصاویر کے، جن میں حجاب کو تولیا بنا کر لپیٹ رکھا تھا۔ بھئی، آپ لوگ ایسے اُوٹ پٹانگ شوٹس کیوں کرواتےہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’سندھ کے دروازے پر دَستک‘‘ مسٹر راجپوت نے دی اور اپنے منفرد طرزِ تحریر سے سندھ کے حوالے سے اہم معلومات قارئین تک پہنچائیں۔ جنگ، سنڈےمیگزین گلگت اور کشمیر میں بھی پڑھا جاتا ہے، لیکن وہاں سے میگزین پر تبصرہ نہیں آتا، کیوں؟ کم اَز کم گلگت سے ایک تبصرہ تو ہر میگزین میں ہونا ہی چاہیے۔(نورالہدیٰ محمّد اسلم، وادیٔ مہران، جھڈو)

ج: جو خطوط، تجزیئے، تبصرے موصول ہوتے ہیں، وہ شامل کر لیے جاتے ہیں۔ اب گلگت سے کوئی خط نہیں لکھ رہا تو ہم کیا کریں۔ آپ کہیں تو اُن کے ترلے منتّیں کرنےخود گلگت چلےجائیں۔

میگزین کے چاہنے والے

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کی طرف توجّہ دلائی، بہترین کام کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نے حضرت سُمیّہؓ کے متعلق مضمون بھی نہایت محبّت سے تیار کیا۔ اُن کی کاوشوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ بہت اچھا سلسلہ ہے، اِسے مستقل جاری رکھیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر خبیب شاہد نے ’’عالمی یومِ صحت‘‘ پر اہم معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں طلاق کے موضوع پر تحریر پسند آئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں م۔ح سحاب نے شہدائے گیاری کی یاد میں خصوصی مضمون لکھا، جو بلاشبہ جریدے کی جان تھا۔ منور مرزا کے تجزئیات کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ اسرار ایوبی نے شہرۂ آفاق ٹی وی میزبان، لیری کنگ سے متعلق شان دار تحریر لکھ کر حق ادا کر دیا۔ اب بات ہو جائے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ آپ نے ہمیں خادم ملک سے 10ہاتھ آگے قرار دے دیا۔ ایسا نہیں ہے، ہم تو بس سنڈے میگزین کے چاہنے والے ہیں اور اپنی محبتوں کے اظہار کے لیے تفصیلی خط لکھتے ہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ارے ہم نے یوں ہی اَزراہ تفنّن کہہ دیا ہوگا، آپ دِل پر نہ لیں۔ آپ جیسے جریدے کے چاہنے والے ہی تو ہمارا اصل اَثاثہ ہیں۔ ہاں، اتنا خیال ضرور رکھیں کہ خط مختصر اور جامع لکھنے کی کوشش کیا کریں۔ نیز، اس بار سطر چھوڑ کر لکھا ہے، تو حاشیہ چھوڑنے کی بھی عادت ڈالیں۔ جو خطوط شرائط پر عمل درآمد کے ساتھ لکھے جاتے ہیں، وہ شایع بھی ترجیحاً کیے جاتے ہیں۔

ہمارے اصل ہیرو

ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا ماہِ صیام سے متعلق مضمون اپنے اندر خوشبوئوں کے خزانے سموئے ہوئے تھا۔ ’’تذکرۂ صحابیاتؓ‘‘ میں حضرت فاطمہ بنتِ اسدؓ کا بھی مہکتے الفاظ سے ذکر کیا گیا۔ ماہِ صیام اور طبّی مسائل کےحوالے سے ڈاکٹر عبدالعزیز ضیاء کا مضمون بہت معلوماتی تھا۔ رعشے سے متعلق ڈاکٹر عبدالمالک کا مضمون بھی مفید معلومات کا خزانہ ثابت ہوا۔ ’’مہرگھر‘‘ بلاشبہ نفرتوں کے جزیرے میں محبّتوں کا پیغام ہے۔ آفرین ہے، اُن جوانوں پر جو نفرت کے کانٹوں کو محبّت کے پُھولوں سے مہکا رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دراصل ہمارے اصل ہیروز ہیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں جہلم کے ایک روشن ستارے شاہد حمید کی یادیں لُطف دے گئیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف ’’شام کِھلتی ہے تِرے آنے سے، آئو اس شام کو اَمر کرلیں‘‘ گنگناتی رہیں، تو رائو محمّد شاہد ’’سونے پہ سہاگا‘‘ کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور قلم کے مالک، منور مرزا کا کہنا بجا کہ بداعتمادی ختم کیے بغیر پاک، بھارت تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں انٹرنیشنل ڈیزائنر، سرفراز اکبر کی باتیں بھلی لگیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’اذان کا جواب‘‘ واقعے کا جواب نہ تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس بار دمک رہا تھا، شہزادہ بشیر محمد نقش بندی کا نام۔ بہت بہت مبارکاں شہزادے نوں۔ باقی خطوط بھی صفحے کو چار چاند لگاتے نظر آئے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

غیرعلانیہ بائیکاٹ

بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آپ نے ہمارے خطوط کی اشاعت کا غیرعلانیہ بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ دیکھیں، ہم کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ ہم ایک نواب زادے ہیں اور ایک عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مانا کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہوئے۔ ہم کرکٹر بننا چاہتے تھے، ناکامی کے بعد ڈاکٹر بننے کی ٹھانی۔ پھر بیورو کریٹ بننے کی خواہش کی، مگر خدا کے فضل سے ہم اپنے ہر ارادے میں ناکام ہوئے۔ مگر ہم آج بھی ایک ایڈونچر سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا کی ٖ6 ارب آبادی میں شاید ہی کوئی ہم جیسا ہو۔ اور دیکھیے، سنڈے میگزین میں ’’نئی کتابیں‘‘ کا صفحہ شایع نہ کیا کریں۔ یہ صفحہ بہت ہی فضول ہے۔ اس فیس بُک اور واٹس ایپ کے دَور میں بھلا کون کتابیں پڑھتا ہے۔ ارے بھئی، اب جدید زمانہ ہے، پوری دنیا ہماری انگلیوں کی پوروں پر ہے، تو ایسے میں کون اِن کتابوں پر ہزاروں روپے برباد کرے گا۔ براہِ مہربانی سنڈے میگزین کو بھی 2022ء میں لے آئیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: لگ بھگ ہر دوسرے ہفتے آپ کا خط شایع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کو لگتا ہے کہ ہم نے آپ کے خطوط کا غیرعلانیہ بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ تو پھر لگتا رہے کہ ہر عارضہ قابلِ علاج نہیں ہوتا۔ اور یہ جو آپ کی ناکامیوں کی فخریہ پیش کش ہے ناں، جسے خیر سے آپ ’’اللہ کا فضل‘‘ قرار دے رہے ہیں، اگر کتابوں سے تھوڑی رغبت رکھی ہوتی ناں تو آج یہ حال نہ ہوتا۔

جگنو سے ہاتھ جل جائے…

تازہ شمارہ نہایت ہی دل چسپ اور معلومات سے بھرپور تھا۔ سرِورق بھی دل نشین لگا۔ پاک، بھارت رُوداد کے ساتھ تعلیمی اداروں، عالمی یومِ صحت اور مُلک و قوم کے محافظوں سے متعلق مضامین، نیز، رنگ بکھیرتی نازنین، سب ہی بہترین رہے۔ ہم نے کبھی پلٹ کے نہیں دیکھا، کیوں کہ پلٹ کردیکھنےوالےاکثر پتھر ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف بکھرے سبزے میں حسین کپڑوں میں ملبوس، صراحی دار گردن والی نازنین اُداس آنکھیں لیے خلائوں میں دیکھتی بہت بھلی لگی… چوڑیوں، بالیوں کی میچنگ بھی خُوب تھی۔ محمود میاں نے حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے خُوب صُورت نگارش تحریر کی۔ م۔ح سحاب کی پاک فوج کے شیردل جوانوں پر لکھی گئی خصوصی تحریر کا جواب نہ تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا پاک، بھارت تعلقات پر رقم طراز تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تو رنگوں کی بارش ہورہی تھی۔ تمام پہناوے خُوب صُورت لگے۔وہ کیا ہے ناں ؎ نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے… جلے پہ خوشبو لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں۔ اپنے صفحے ’’بزمِ یاراں‘‘ کی بات کریں، تو سب ہی خطوط عمدہ لگے، مگر اسماء دمڑ کو 21توپوں کی سلامی، مسند پر براجمانی مبارک ہو۔ (پیر جنید علی چشتی، ملتان شریف)

ج: جی ہاں، آپ پلٹ کر نہیں، ٹکٹکی باندھ کے دیکھتے ہیں۔ ماڈل پر اس قدر ریسرچ کے بجائے کوئی نیک کام فرما لیتے، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

کلاسیکل جواب

اس بار 4شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ چاروں میں سنڈے میگزین کی شان، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے خُوب صُورت صفحات موجود تھے۔ پہلے شمارے میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے مضامین پڑھے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا مضمون ’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ‘‘ اور شفق رفیع کی تحریر لاجواب لگی۔ ’’اسٹائل‘‘ میں آپ کی تحریر مع ایک خُوب صُورت غزل کمال ہی لکھی گئی۔ ایسا شان دار شمارہ پیش کرکے حق ادا کردیا۔ معروف افسانہ نگار، ناول نویس سلمیٰ اعوان سے گفتگو پڑھ کر بہت لُطف آیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری سے متعلق پڑھ کر اچھا لگا۔ شہزادہ بشیر کو آپ نے کلاسیکل جواب دیا۔ تیسرے شمارے میں ’’فیچر‘‘ زندہ شوہروں کی بیوائیں چونکا دینے والا تھا۔ واقعی ان خواتین کی کیا زندگی ہوتی ہوگی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں ہنس مُکھ اداکارہ، رابعہ کلثوم اور ہر دل عزیز فن کار، وہاج علی کی کھٹی میٹھی باتیں مزہ دے گئیں۔ اسٹائل کا رائٹ اَپ کافی عرصے سے عالیہ ہی لکھ رہی ہیں۔ پلیز! کبھی کبھی آپ بھی اپنے قلم کا جادو جگا دیا کریں۔ ہمارے اپنے صفحے میں آپ نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی، تو ہم بھی جواباً کہتے ہیں کہ آپ کے بےحد ممنون ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کے لیے بھی ایک کلاسیکل جواب حاضر ہے۔ خدا کے واسطے حاشیہ چھوڑ کر لکھنے کی عادت ڈالیں۔ صفحات کے دونوں جانب سے الفاظ جس طرح چھلانگیں مار مار کے باہر جارہے ہوتے ہیں، بعض اوقات دماغ مائوف ہوجاتا ہے، مگر اصل لفظ کیا تھا، یہ گُتھی سلجھ نہیں پاتی۔  اگربچپن میں اساتذہ نے اسکیل سے پٹائی کرکرکے یہ عادت ڈالی ہوتی، تو آج ہمیں یہ سزا نہ بھگتنی پڑتی۔

تصحیح فرمالیں

محترمہ! آپ کی توجّہ سنڈے میگزین کی اشاعت مورخہ 25؍اپریل 2021ء کے صفحہ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر شہزاد احمد کے معروف نعت خواں الحاج سعید ہاشمی پر لکھےگئےمضمون کی طرف کروانا چاہوں گا، جس میں قبلہ والدِ گرامی کی مشہور حمد ’’دل میں ہے یاد تیری، لب پر ہے نام تیرا‘‘ کا ذکر کیا گیا۔ لیکن غالباً کتابت کی غلطی کی وجہ سے اعلیٰ حضرت کا نام شیوا بریلوی کی بجائے شیدا بریلوی شایع ہوا ہے۔ آپ سے مودبانہ التماس ہے کہ اس کی تصحیح فرمالیں۔ (احسن عثمانی،فرزند شیوا بریلوی، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: اصلاح و رہنمائی کا بےحد شکریہ۔ یقیناً قارئین کرام نے بھی نوٹ فرما لیا ہوگا۔

                                                                            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

دبستانِ اَدب کے معتبر نام ’’سنڈے میگزین‘‘ کا زیرِ نظر شمارہ مقابل آیا، تو اِک سحر انگیز صدا سی سُنائی دی؎ کھنکتے لہجے سے باتیں گُلاب کردوں گی… برگِ گُلاب کی لطافت محسوس کرتےورق گردانی کی تو ’’عالمی اُفق‘‘ میں نبّاضِ عالم، منور مرزا چِین کے گرد لپٹی چار ممالک کی شیطانی چین پر بےچین دکھائی دیئے۔ ویسے سر تا سر سیاہ، مضمونِ مرزا میں گر چند ذیلی سُرخیاں بھی جَڑی ہوں تو گویا سُرخاب کے پَر لگ جائیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں کے قلمِ نجم کا کرشمہ آب و تاب سےجاری ہے۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں، ہیں…یہ کیا؟؟ ’’کاکا رُل گیا‘‘ اوہ سوری! لکھا ہے ’’اجناس کا کاشت کار رُل گیا‘‘ بھئی، ایسی Tongue Twister ہیڈنگز کی حدّتِ کثافت سے تو ہمارے دماغ کی قلعی کُھرجاتی ہے۔ اللہ آپ کو اَجرِ عظیم اور مضمون نگار (روحی معروف) کو کرمِ بےشمار سے نوازے کہ ’’عالمی یومِ آگہی برائے آٹزم‘‘ پر ذہنی مسائل سے دوچار بچّوں کے مسائل و علاج معالجہ پر روشنی ڈالی گئی اور’’انٹرویو‘‘میں تو اِک اسکالر کے خیالاتِ زرّیں شفق رفیع کے قلم کی وساطت سے دماغ کی لوحِ مرمریں پر نقش سے ہوگئے۔ تاہم، خصوصی بات چیت میں سنجیدگی کی رَدا کے ساتھ ذرا سا دل چسپی کا دامن بھی پکڑا جائے، تو سونے پر سہاگا ہو۔ مدیرہ صاحبہ! ذرا غور فرمائیں کہ 2019ء کو کورونا کا اینٹری ایئر تھا تو 2020ء کورونائی دہشت کا سال۔ اب سالِ رواں (2021ء) میں چاروں طرف ویکسین فار سیل… سیل… سیل کا شور ہے اور 2022ء میں کپتان لاء کا اندیشہ ہے ’’ویکسین نہ لگوانے والوں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ نے ’’شادی‘‘ کی غیر ضروری رسومات پر عُمدہ قلم کُشائی کی۔ اسٹائل اسٹوڈیو (مرکزی صفحات) کی سلور اسکرین پر اس بار لکھا تھا؎ مسکرائو بہار کے دن ہیں… گُل کھلائو بہار کے دن ہیں۔ ناں بھئی ناں! ہمارے تو کانوں کو ہاتھ ہیں (برادر نقش بندی کی آنکھ پر شال دھر کر جو گل بخشالوی کی گئی تھی، وہ ہمیں یاد ہے) ’’کہی اَن کہی‘‘ میں وہاج علی نے دِل کی کہی اور خُوب کہی کہ ’’شادی سے پہلے اہلیہ کی گلیوں کے چکّر لگاتا رہا‘‘ بے شک، وہ ہے ناں کہ ’’No Pain No Gain‘‘۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں غزلِ زیریں کی گھڑمس پرنٹنگ پر تو ہماری چشمِ بیمار کا ٹمپریچر لاک ڈائون سے سیون اَپ ہوگیا، مگر اختر سعیدی (نئی کتابیں) اور محمّد ہمایوں ظفر (ناقابلِ فراموش) کے بارے میں یہ ضرور کہیں گے ’’قلم اِسی طرح روانی کے ساتھ ضوفشاں رہے‘‘ اور قلم کینٹین (آپ کا صفحہ) میں کائونٹر آف آنر پر متمکّن ہونے پر عیشا نیاز رانا کو گل دستۂ شادباش۔ علاوہ ازیں، اُن کا اور قائم خانی کا مبارک بادی سندیسوں پر بہت شکریہ۔ 35 لمحاتی نصف ملاقات کی آخری گھڑی میں ہم قارئینِ جنگ کی طرف سے اُلفت کے گیت، محبّتوں کے نغمے اور چاہتوں کے پیام، میگزین ٹیم اور مدیرہ صاحبہ کے نام۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: کپتان ویکسین نہ لگوانے والوں کو تو تب نہیں چھوڑے گا، جب ہر ایک کو ویکسین فراہم کرے گا۔ پولیو تو آج تک ختم ہو نہیں سکا اس مُلک سے، کورونا کیا خاک ختم ہوگا۔

گوشہ برقی خُطوط
  • آپ میری اردو شاعری یا اردو تحریر شایع کریں گی؟ (فاطمہ شاہ)

ج :اردو شاعری، اردو تحریر…؟؟ کیا آپ فارسی میں بھی لکھتی ہیں، ویسے اردو اخبار میں اردو کی تحریریں شایع نہیں ہوں گی، تو پھر کس زبان کی ہوں گی۔ پتا نہیں، آپ لوگ ہمارا امتحان لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا ماشاء اللہ خود ہی دانش وَری کی معراج کو پہنچے ہوئے ہیں۔

  • مَیں نے نظامِ تعلیم سے متعلق کچھ تحریریں لکھی ہیں اور مَیں یہ مضامین سنڈے میگزین میں بھیجنا چاہتا ہوں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ تحریریں سنڈے میگزین میں شایع ہوجائیں گی۔ ذرا جلدی جواب دے دیا کریں، انتظار رہتا ہے۔ (لیکچرار احسن بیگ، کراچی)

ج:باری آنے سے پہلے جواب دینا ممکن نہیں اور تحریر دیکھے بغیر اشاعت سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

  • میگزین میں ناقابلِ فراموش کا صفحہ باقاعدگی سےشامل کیاکریں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی تحریریں بہت معلوماتی اور اثر انگیز ہوتی ہیں۔ ایک پیغام کے صفحے پراپنا نام دیکھ کردل خوش ہوگیا۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)
  • مجھے جنگ، سنڈے میگزین بہت پسند ہے۔ سرچشمہ ہدایت، ناول، پیارا گھر، ناقابلِ فراموش، کہی اَن کہی، آپ کا صفحہ اور باقی تمام سلسلے بہت اچھے اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ اللہ آپ کو اور میگزین کو اسی طرح شاد و آباد رکھے۔ آمین (سحر امیر، بلدیہ ٹائون ،کراچی)

ج:بہت شکریہ سحر۔

  • مَیں نے ’’بدلتی دنیا‘‘ کے عنوان سے ’’پیارا گھر‘‘ کے لیے ایک مضمون بھیجا تھا۔ براہِ مہربانی بتادیں کہ کیا وہ قابلِ اشاعت ہے یا اگر اصلاح کی ضرورت ہےتو بھی بتایئے، مَیں ایک سرکاری ادارے سے وابستہ ہوں۔ (سعدیہ اعظم)

ج: انفرادی طور پر کسی مضمون سے متعلق بتانا ممکن نہیں۔ خواہ کوئی کسی سرکاری ادارے سے وابستہ ہو یا نجی سے۔ آپ ہماری ناقابلِ اشاعت کی فہرست باقاعدگی سے چیک کیا کریں۔ قابلِ اشاعت تحریر بغیر کہے شایع کردی جاتی ہے اور ناقابلِ اشاعت کی اطلاع فہرست کے ذریعے دی جاتی ہے۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین