• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطالعے کے رسیا نوجوان کو جانے کیا سُوجھی، اچانک جہلم سے چل پڑا اور مختلف گاڑیاں بدلتا کراچی کے ریلوے اسٹیشن جا اُترا۔لوگوں سے اَتا پتا پوچھ پاچھ کر شہر کی پُرانی آبادی میں واقع ایک گھر کے دروازے پر دستک دی اور پھر بے چینی سے کسی کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد چرچراہٹ کی آواز سے دروازہ کُھلا اور اُردو کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار، ابنِ صفی ہاتھ میں بالٹی پکڑے نوجوان کے سامنے آ کھڑے ہوئے، شاید وہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھے۔ 

تعارف کے بعد آنے کا مقصد دریافت کیا، تو یہ سُن کر حیران رہ گئے کہ نوجوان نے محض اُن سے ملنے کے لیے سیکڑوں میل کی مسافت طے کی ہے۔ اور پھر زمانے نے کروٹ لی۔ جَلد ہی وہ وقت آگیا، جب مُلک کے کونے کونے سے علم وادب کے شیدائی اُس شخص سے ملاقات کے لیے سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے جہلم جانے لگے۔اِس نوجوان کی کہانی دِل چسپ تو ہے ہی، محنت اور لگن کی انوکھی دنیا سے بھی روشناس کرواتی ہے۔ مطالعے کے شوق نے کتابیں جمع کرنے کی جوت جگائی،پھر سوچا، یہ روشنی اپنے ہی تک کیوں محدود رہے؟ 

سو، اپنے پاس موجود کتابوں کو’’ آنہ لائبریری‘‘ میں بدل دیا۔ بے چین رُوح اب بھی مزید کچھ کرنا چاہتی تھی۔ایک روز نئی عمارت بنتے دیکھی، تو کارنر کی دُکان لے کر ’’بُک کارنر‘‘ کے نام سے کتابوں کی چھوٹی سی دُکان کھول لی، جس میں درسی کتب، اسٹیشنری، مختلف کارڈز، بچّوں اور بڑوں کے معروف رسائل کے ساتھ دیگر کتب بھی موجود تھیں۔کچھ بڑا کام کرنے کا جذبہ برقرار تھا، تو محنت زندگی کا شعار تھی، لہٰذا جَلد ہی کتابوں کی اشاعت کا کام شروع کردیا اور اس شعبے میں کچھ ایسا مقام بنایا کہ آج اُن کا قائم کردہ ادارہ اچھی اور معیاری کتب کی اشاعت کا ایک منفرد اور مستند نام ہے۔ جی، یہ بُک کارنر جہلم کے بانی، شاہد حمید کی کہانی ہے، جنھوں نے فوج کو اپنے جوان دینے کے حوالے سے معروف شہر جہلم کو ایک ایسی علمی و ادبی شناخت عطا کی، جس پر یہ خطّہ بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔

خاندان، ابتدائی زندگی:شاہد حمید 26 مئی 1951ء کو جہلم کے ایک متوسّط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابھی 10 برس کے تھے کہ والد، شیخ عبدالحمید کا سایہ سَر سے اُٹھ گیا۔ پہلے بھی مال و دولت کی کچھ زیادہ ریل پیل نہ تھی، گھر کے سربراہ کی یوں موت سے مالی حالات مزید بگڑ گئے۔ والدہ نے پانچوں بچّوں کو سنبھالا اور مشکل حالات میں بھی ان کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ ہوئیں۔ابتدائی تعلیم والدہ کے زیرِ سایہ حاصل کی۔ بعدازاں، میٹرک میں شان دار کارکردگی دِکھاتے ہوئے گورنمنٹ کالج، جہلم پہنچ گئے۔مگر صرف 19 برس کے تھے، جب شفیق والدہ بھی انتقال کرگئیں۔

کتابوں سے دوستی:وہ کتابوں کے تاجر ہی نہیں، وسیع مطالعے کے بھی حامل تھے۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے ایک بار بتایا’’ پانچویں کلاس سے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ ابتدا میں شفیق الرحمٰن اور ابنِ صفی کو پڑھا۔ خالہ کے گھر سیال کوٹ جایا کرتا، کزن خاصے پڑھے لکھے تھے، اُن کے پاس ایک خُوب صُورت لائبریری تھی، جس سے استفادے کا موقع ملتا۔‘‘مطالعے کے شوق سے کتابوں کا ڈھیر لگ گیا، تو 1970ء میں’’ انصاف لائبریری‘‘ کے نام سے آنہ لائبریری قائم کی۔ کالج سے واپسی کے بعد وہاں خود بھی بیٹھے پڑھتے رہتے اور دوسروں کو بھی یہ شوق منتقل کرتے۔

لوگوں کی جانب سے نت نئی کتب اور رسائل کا تقاضا ہونے لگا اور کچھ اپنا بھی شوق تھا کہ دِل میں کتابوں کی دُکان کھولنے کی خواہش انگڑائی لینے لگی اور پھر وہ دن بھی آگیا۔ ایک نئی عمارت کی کارنر کی دُکان پسند آئی، تو ماموں کو لے کر مالک کے پاس جا پہنچے اور جلد ہی معاملات طے پاگئے، یوں جنوری 1973ء میں’’ بُک کارنر‘‘ کے نام سے کتابوں کی دُکان کھول لی، جس میں نصابی کتب، اسٹیشنری وغیرہ کے ساتھ اُس دَور کے معروف رسائل و جرائد بھی موجود ہوتے۔ نیز، مختلف موضوعات پر کتب بھی رکھنے لگے۔مگر منزل ابھی دُور تھی۔ 1980ء میں کتابیں فروخت کرنے کے ساتھ کتابیں چھاپنے کا بھی کام شروع کردیا۔

بچّوں کا ادب اور ادبی ناولز سے اشاعت کا آغاز کیا، بُک کارنر سے چَھپنے والی پہلی کتاب’’ ٹارزن کا خزانہ‘‘ تھی۔خواب بہت بڑا تھا، اِس لیے اِن چھوٹی چھوٹی کتابوں کی اشاعت پر بھلا کہاں ٹھہراؤ ممکن تھا، لہٰذا، طباعت میں جدّت اور نئی روایات قائم کرنے کے لیے گھر ہی کے تہہ خانے میں پریس لگانے کا فیصلہ کیا اور جَلد ہی یہ کام بھی کر گزرے۔بے حد محنت اور شوق سے جدید مشینز لگائیں، مگر منیر نیازی نے یہ شعر شاید ایسے ہی مواقع کے لیے کہا تھا کہ’’ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو …مَیں ایک دریا کے پار اُترا، تو مَیں نے دیکھا۔‘‘

ہوا یوں کہ1992 ء میں جب مشینز لگ گئیں اور کام شروع ہونے کو تھا، تو طوفانی بارشوں اور سیلاب کا پانی تہہ خانے میں داخل ہوگیا اور مشینز ڈوب گئیں، جس سے بھاری مالی نقصان ہوا۔ گویا شاہد حمید مشکلات کے دریا پار کرکے ساحل پر پہنچے ہی تھے کہ ایک حقیقی دریا اُن کے سامنے موجود تھا، جس میں اُن کی کمائی اور حسرتیں تیر رہی تھیں، مگر وہ کب ہمّت ہارنے والے تھے۔ نئے جوش وجذبے سے اُٹھے اور نئے سرے سے سیٹ اپ لگا کر ایسی کتب کی اشاعت شروع کردی، جو بعدازاں اُن کی پہچان بنیں۔

بنیادی طور پر دین دار شخص تھے، اِس لیے قرآنِ پاک کی دیدہ زیب اشاعت کی بھی سعادت حاصل کی۔چھوٹے صاحب زادے، اَمر شاہد بتاتے ہیں’’ والد صاحب کو ہمیشہ کلام اللہ کی اشاعت سے تسکین ملتی ۔ اُنھوں نے کبھی اپنا وزٹنگ کارڈ نہیں چَھپوایا، ہمیشہ لوگوں کو اپنی چَھپی سورۂ یٰسین مفت تھما دیتے اور کہتے،’’ اِس کی پُشت پر پتا اور نمبر درج ہے، جب یٰسین شریف پڑھیں، تو مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔‘‘ 2004ء میں تہہ خانے میں قائم پرنٹنگ پریس کو ’’بُک کارنر شو روم‘‘ میں بدل دیا۔

لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب کہا، دوستوں نے منع کیا کہ ایک ایسے دَور میں جب سعود عثمانی کو بھی کہنا پڑا کہ’’ کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ رُوٹھنے کو ہے…یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘‘ ایک چھوٹے سے شہر میں ایسی سرمایہ کاری؟ مگر آج علم ومطالعے کے پیاسے اُس جانب دوڑے چلے جاتے ہیں۔ یہ شو روم بھی کمال ہی ہے!! بڑے ہال میں ہزاروں علمی و ادبی کتابیں موضوعات کے اعتبار سے رکھی گئی ہیں۔ ہر موضوع کا الگ سیکشن ہے۔ پھر یہ کہ اپنے ادارے کے ساتھ دیگر پبلشرز کی کتب بھی شائقین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کی گئی ہیں۔

کام ہی میں آرام :جان توڑ محنت اور قابلِ رشک تخلیقی صلاحیتیں ، یہ دو ایسے اوصاف ہیں، جن کا شاہد حمید پر لکھے گئے تقریباً تمام ہی مضامین میں اعتراف کیا گیا ہے۔صاحب زادے، گگن شاہد کہتے ہیں’’ والد نے زندگی پھر اَن تھک محنت کی۔ بہت کم آرام کرتے۔زندگی بَھر صبح سویرے اُٹھنے کی عادت رہی۔دِن کی روشنی میں کبھی اُنہیں سوتے نہیں دیکھا۔ صبح سویرے اخبار پڑھتے اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے۔ والد کو کئی بار کہا کہ’’ آپ کو اب زیادہ کام کی ضرورت نہیں۔کم از کم اپنے لیے ایک دن چُھٹی کا تو ضرور رکھیں۔‘‘ہماری بات مذاق میں اُڑا دیتے اور کہتے’’ بیٹا! چُھٹی تو میری بس ایک ہی دِن ہو گی۔‘‘ 

خیر، اُنھیں بڑی مشکل سے اِس بات پر قائل کیا کہ جمعے کے دِن چُھٹی کیا کریں گے، مگر یہ بات بھی اُنہوں نے آدھی مانی۔ کہنے لگے’’دِن ایک بجے تک کام ہوگا، جمعے کی نماز پڑھ کر چُھٹی کرلیا کروں گا۔‘‘ اَمر شاہد کا کہنا ہے’’ والد کی شخصیت میں شوق اور پیشہ یک جا ہوگیا تھا۔مسوّدوں کی حروف خوانی، نظرثانی، ترتیب و تدوین، پیسٹنگ، چَھپائی، غرض سب کاموں پر نظر رکھتے، بلکہ بیش تر کام خود ہی سرانجام دیتے۔اُن کی لکھائی بہت خُوب صُورت تھی،کبھی کاتب میّسر نہ ہوتا، تو خود ہی زور آزمائی کرتے۔کتابوں کے لیے خود ہی اشتہارات تخلیق کرتے۔‘‘

قابلِ تقلید کاروباری گُر:حفیظ جالندھری کا شکوہ تھا کہ’’ حفیظؔ اہلِ زباں کب مانتے تھے…بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں‘‘ مگر یہ تقریباً سبھی کام یاب افراد کی کہانی ہے۔ شاہد حمید نے بھی کتابی دنیا میں خود کو’’ بڑے زوروں‘‘ سے منوایا کہ مارکیٹ میں جگہ بنانا آسان نہ تھا۔ تاہم، اُن کی کام یابی کا اصول بہت سادہ رہا اور وہ تھا’’ معیار پر کسی صُورت سمجھوتا نہ کرنا۔‘‘ اِس ضمن میں کہا کرتے تھے’’معیار خود جگہ بناتا ہے۔لوگ پڑھنا چاہتے ہیں، بس کتاب پڑھانے کا فن آنا چاہیے۔ کبھی جھوٹ بول کر کتاب نہیں بیچی۔ صرف اچھی کتاب ہی کی تعریف کی، جس کی وجہ سے لوگوں کا ہم پر اعتماد بڑھا۔جب لوگوں نے ہمارے کام کی تعریف کی، تو اس سے ہمیں حوصلہ ملا۔‘‘

گگن شاہد کہتے ہیں’’ والد صاحب کی کوشش رہی کہ کتابوں کی پروڈکشن عالمی معیار کی ہو۔وہ سرورق، کاغذ، پرنٹنگ، بائنڈنگ اور پروف ریڈنگ پربہت توجّہ دیتے تھے۔نیز، اُنھوں نے کتابوں کی قیمت بھی شائقین کی پہنچ کے مطابق رکھی۔‘‘اسی حوالے سے رؤف کلاسرا کا کہنا ہے’’ شاہد حمید نے کتاب کو جمال بخشا، ایسا جمال جو کتاب کھولنے اور پڑھنے سے پہلے ہی آپ کو مسحور کردیتا ہے۔‘‘جب کہ خالد مسعود نے لکھا’’ کتاب کو پیشے سے زیادہ محبّت بنانے کا جو مقام شاہد حمید کے ہاں دیکھا،اسے منزل بنانے کو دل کرتا ہے۔‘‘

اپنے بچّوں کے دوست :شاہد حمید 1985ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تین بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا۔دونوں بیٹے، گگن اور اَمر والد کے بازو بنے۔بقول عرفان جاوید’’ شاہد حمید اپنے بیٹوں کے بڑے بھائی تھے۔ اُنھوں نے اپنے آنگن میں دو پودے لگائے۔ ایک اپنے اشاعتی ادارے کا اور دوسرا اپنی اولاد کا، جس پر اَمر اور گگن دو پھولوں کی مانند ہیں۔ دونوں سکون آور اور خوش بُودار ہیں۔‘‘بیٹوں کا اپنے دوستوں سے یوں تعارف کرواتے’’ اِن سے ملیے، میرے آپ سے بھی پرانے دوست ہیں۔‘‘اُنھیں بیٹیوں سے بھی بے حد محبّت تھی۔

پہلا عُمرہ اہلیہ اور بیٹیوں کے ہم راہ کیا۔عام طور پر کتابوں میں کھوئے رہنے والوں کی زندگی خاصی خشک ہوتی ہے اور گھر والوں کو ان کی خشک مزاجی زیادہ ہی برداشت کرنی پڑتی ہے کہ باہر مصنوعی اخلاقیات سے بھی کام چلا لیا جاتا ہے، مگر شاید حمید جس طرح دُکان اور دوستوں کے درمیان ہنستے رہتے، گھر میں بھی قہقہے بلند رکھتے۔صاحب زادے بتاتے ہیں’’ ہمارے والد زندہ دِل انسان تھے۔ اُن کی حسِ مزاح بہت شان دار تھی۔ موقع محل کی مناسبت سے لطیفے بنا لیتے۔ بہت حاضر دماغ تھے۔

وہ اپنی خود نوشت لکھ رہے تھے، پاس کھڑے شاعر نے کہا’’ آپ نے اِتنا عمدہ کاغذ ضائع کردیا۔ اگر یہ اوراق سادہ ہوتے، تو مَیں اُن پر اپنا کلام لکھتا۔‘‘’’ کاغذ تو اُس صُورت میں بھی ضائع ہوتا۔‘‘والد صاحب نے بے ساختہ جواب دیا۔ اُنہیں شاعروں، ادیبوں کی دل چسپ باتیں اور لطائف جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔ 2016ء میں اُن کے لطائف کی ڈائری ”شاعروں، ادیبوں کے لطیفے“ کے نام سے شائع کی۔‘‘

گگن شاہد نے آخری دن کا واقعہ بتایا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھیں اپنے بچّوں کا کس قدر خیال تھا۔’’16 مارچ کی رات والد کی طبیعت خراب ہوئی اور اُنہیں سی ایم ایچ جہلم لے جایا جا رہا تھا، وہ زندگی موت کی کش مکش میں تھے۔کچھ ہوش آیا، تو ایک دَم پوچھا’’ کیا وقت ہوا ہے؟‘‘ ساتھ موجود اَمر اور میری بہن اکٹھے بولے ’’پاپا 8بجے ہیں۔‘‘ فوراً کہا’’ یہ تو گگن کے گھر آنے کا وقت ہے۔ 

وہ شوروم پر ہے اور تم سب میرے ساتھ ہو، گاڑی اور ڈرائیور بھی میرے ساتھ ہے۔ وہ گھر کیسے آئے گا؟ بہتر ہوتا کہ پہلے گگن کو لے لیتے، پھر مجھے اسپتال لے جاتے۔‘‘اُنھوں نے بچّوں کے نام بھی روایت سے ہٹ کر رکھے۔ اس کی بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔بیٹے نے بتایا ’’گگن (Gagan) فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب آسمان ہے۔ یہ لفظ ہندی گیتوں میں بہت استعمال ہوا ہے، یوں کچھ لوگ سمجھتے ہیں گگن ہندی زبان کا لفظ ہے۔ 

درحقیقت یہ لفظ فارسی کا ہے اور فارسی لغت میں بآسانی مِل جاتا ہے۔ امر (Amar) عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی حُکم کے ہیں۔ یہ لفظ میرے والد نے عربی کی مشہور عبارت ’’امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘ سے اخذ کیا، جس کا مفہوم ہے’’نیک کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔‘‘ والد کہتے تھے کہ اُنھوں نے یہ نام شادی سے بھی پہلے سوچ لیے تھے۔ اِس سے بھی زیادہ حیرت اور دِل چسپی کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے یہ دونوں نام بیٹوں کی پیدائش سے بھی پہلے اپنی کتابوں میں شائع کرنے شروع کر دیے۔ کبھی اہتمامِ اشاعت کے طور پر ، کبھی سرورق یاکسی اور ضمن میں نام دے دیتے۔‘‘

پودا بنا تناور درخت:آنہ لائبریری سے شروع ہونے والا سفر پانچ عشروں کی محنت کے نتیجے میں کام رانیوں کی بلندیاں چُھو رہا ہے۔ شاہد حمید یوں بھی خوش قسمت رہے کہ اُنھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ہاتھ سے لگائے گئے پودے کو ایک ایسے تناور درخت کی صُورت دیکھ لیا، جس کی شاخیں علمی خزانوں سے لدی ہوئی ہیں۔

گگن شاہد کے مطابق، ’’بُک کارنر، جہلم سے اب تک مذہب، تاریخ، ادب، فلسفہ، نفسیات، سفر نامے اور آپ بیتی جیسے موضوعات پر1500 سے زاید کتابیں چَھپ چُکی ہیں، جب کہ ادارے سے معروف ادبی پرچہ’’ تسطیر‘‘ بھی کتابی صُورت میں شایع ہو رہا ہے۔ہم نے پاکستان میں سب سے پہلے آن لائن بُک اسٹور کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں فالوورز کی تعداد چھے لاکھ سے تجاوز کر گئی۔‘‘ امر شاہد کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہر ماہ کم ازکم 10 نئی کتابیں چھاپ رہا ہے۔

شاہد حمید چاہتے تھے کہ دُنیا ’’جہلم‘‘ کو ’’بُک کارنر‘‘ کی وجہ سے پہچانے،جب وہ17 مارچ 2021ء کو دُنیا سے رخصت ہوئے، تو اُن کی یہ خواہش بھی پوری ہو چُکی تھی۔ کہیں پڑھا تھا کہ علم ، اپنی خدمت کرنے والوں کو زندہ رکھتا ہے ، توشاہد حمید بھی اپنی علم دوست اولاد اور کتابوں کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

تازہ ترین