• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب سب کا : نہ اپنوں کو بچائو، نہ دوسروں کو پھنسائو!

’’سب کا احتساب‘‘ کے نعروں میں اپوزیشن کی طرف سے متفقہ طور پر پیش کئے گئے ٹرمز آف ریفرنس نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ بظاہر اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنس گلی محلے کی سیاست سے معاملات کو مذاکرات کی میز پر سنجیدہ طور پر حل کرنے کی کوشش ہیں مگر جب تفصیل سے ان ٹرمز کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن نے GET NAWAZفارمولے پر عمل کرتے ہوئے صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا چنیدہ احتساب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اپوزیشن کی صفوں میں شامل دوسرے افراد اور ان کے خاندانوں کے احتساب کو مؤخر رکھا گیا ہے۔ یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ ایسے ٹی او آر بنائے گئے ہیں جس سے معاملہ حل نہ ہو بلکہ مزید بگڑ جائے تو لڑائی بڑھے۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاناما لیکس دراصل محض ایک لاء کمپنی کے مسودات کا کچھ ہیک شدہ حصہ ہے ، ٹی او آرکو صرف اسی تک محدود رکھنا دراصل قوم کے لئے اس موقع کو ضائع کرنے کے مترادف ہے جس میں سب کا احتساب ہونا لازم ہے۔ محدود احتساب مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید پیچیدگی کا باعث بنے گا۔ اگر دنیا میں آف شور کمپنیوں کا جائزہ لیا جائے تو پاناما میں ہی کئی اور لاء فرمز ہیں جن کے سینکڑوں آف شور اکائونٹس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔اس طرح آف شور کمپنیوں کی دو اور مشہور جگہیں ماریشس اور ورجن آئی لینڈ بھی ہیں۔ ان سب جگہوں پر بہت کم قیمت پر رجسٹریشن، زیرو ٹیکسیشن اور تفصیل ظاہر نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہوتی ہے۔ماہرین ِقانون کے خیال میں چونکہ پاناما، ماریشس اور ورجن آئی لینڈ نے ان عالمی معاہدوں پر بھی دستخط نہیں کیے جن کے تحت وہ اکائونٹس کی تفصیلات بتانے کے پابند ہوں اس لئے ان آف شور اکائونٹس کی تصدیق اور تفصیلات جاننا، فرانزک آڈٹ کروانا ناممکنات میں سے ہو گا۔اپوزیشن کے ٹی او آر زکو کئی تجزیہ کار ایک نیا این آر او قرار دے رہے ہیں، جنرل مشرف کے زمانے میں منظور کئے جانے والے این آر او کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بچایا گیا تھا مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس این آر اوکو خلاف ِآئین قرار دیدیا تھا۔ اپوزیشن کے ٹی او آر سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنوں کو بچایا جا رہا ہے جبکہ دوسروں کو پھنسایا جا رہا ہے۔اگر یہ ٹی او آرز اسی طرح نافذ العمل ہو گئے تو ڈر ہے کہ انہیں این آر او کی طرح عدالت میں چیلنج کر دیا جائے گا۔ان ٹی او آر میں نواز شریف کے بچوں اور باپ، دادا تک کے اثاثے اور اکائونٹس کی تفصیلات جاننے کی بات کی گئی ہے مگر دوسری طرف انہیں پاناما لیکس میں سامنے آنیوالے اپوزیشن شخصیات کے خاندانوں کی انکوائری کی بات نہیں کی گئی۔ کئی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اتنے بڑے اور سنجیدہ معاملے کا فیصلہ صرف 3ماہ کے اندر کروانے کا مطالبہ بھی کئی شبہات کو جنم دیتا ہے۔ آخر اتنی جلدی کیوں کی جا رہی ہے نواز شریف کے حوالے سے ٹائم فریم پر اتنا زور کیوں؟ اہل دانش یہ خیال کر سکتے ہیں کہ مخصوص ٹائم فریم میں کوئی مقصد پنہاں نہ ہو۔اصل میں ہونا تو یہ چاہئے کہ کرپشن کے خلاف میں مہم سے فائدہ اٹھاتے صرف پاناما لیکس کے 200سے زائد ناموں کی نہیں بلکہ 9مئی کو سامنے آنے والے باقی افراد ،ماریشس، ورجن آئی لینڈ سمیت دنیا میں کہیں بھی آف شور کمپنیوں کے مالکوں کی تحقیقات کی جائیں۔ تاریخ کے اس نازک موقع پر جبکہ بال عدالتِ عظمیٰ کی کورٹ میں ہے، چیف جسٹس کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے کیونکہ اگر عدالتِ عظمیٰ نے سیاسی شور شرابے ، اعتراضات یا تنقید کی وجہ سے کمیشن نہ بنایا تو ملک میں بحران پیدا ہو جائے گا۔ماضی میں بھی کمیشن بنانے اورمتاثرہ فریق نے کمیشن پر تنقید کی مگر اس سے یہ مسئلہ چاہے جزوی طور پر ہی سہی حل تو ہوا۔ اب بھی ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے اور متاثرہ فریقوں سے پہلے لکھوا لیا جائے کہ وہ فیصلے کو ہر صورت قبول کریں گے۔ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس کو اس نازک موقع پر اہم ترین ذمہ داری اٹھاتے ہوئے سب کے احتساب کا بیڑہ اٹھانا چاہئے یہ ملک کی سب سے بڑی خدمت ہو گی۔
تازہ ترین