• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالے سوٹ پر سرخ ٹائی لگائے لمبے سفید بالوں والا پروفیسر میچیو کاکو بول رہا تھا اور لوگوںسے کھچا کھچ بھرے دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مین ہال میں ایسا سناٹا تھا کہ سانس لینے کی آوازتک سنائی نہیں دے رہی تھی ، دنیائے فزکس کا یہ ماہر جس کی 90فیصد سائنسی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو چکیںآج آنے والی دنیا کی ایسی جھلک دِکھا رہا تھا کہ 100ممالک کے 2ہزار بزنس ٹائیکونز مبہوت دم سادھے اس "Physics Futurist"کو سن رہے تھے اور بھلا کسی کے سانس لینے کی آواز سنائی بھی کیسے دیتی کہ جب درجن بھر کتابوں کا یہ مصنف بتا چکا ہو کہ ’’ برین نیٹ ، انٹرنیٹ کی جگہ لینے والا ، کمپیوٹرز غائب ہو جائیں گے اور دنیا میں صرف Chipرہ جائیں گی اور وہ بھی اتنی سستی Chips کہ 2020ء تک ایک Chipکی قیمت ایک Pennyہوگی ، جو یہ سنا چکا ہو کہ’’ سر میں دماغ کے قریب Chipلگنے سے ہرشخص ہر لمحہ سیٹلائٹ سے آن لائن رابطے میں ہوگا ، عینکوں میں کیمروں کا لگنا تو پر انی بات ہوچکی اب تو عینک میں انٹرنیٹ ہوگا اورجو عینک نہیں پہنے گا اسکی آنکھوں میں ’’ انٹرنیٹ لینس‘‘ لگیں گے اور عینک پہن کر یا لینس لگا کر جب آپ کسی کو دیکھیں گے تو اسکی بائیوگرافی سمیت تمام بنیادی معلومات بھی آپکی آنکھوں کے سامنے ہوں گی مطلب کسی کو دیکھتے ہی یہ معلوم ہو جائے گا کہ جس سے بات ہو رہی ہے ، وہ اصل میں ہے کون،یہی نہیں اگر کوئی آپ سے کسی غیر ملکی زبان میں بات کرے گا تو نہ صرف اسکی گفتگو کا ترجمہ خود بخود آپکی زبان میں ہو رہا ہوگا بلکہ سیٹلائٹ کی مدد سے آپ اس سے اس کی زبان میںبات بھی کر رہے ہوں گے مطلب زبان کا مسئلہ بھی حل‘‘ اور جواس وقت یہ کہہ رہا ہو کہ’’ آنے والا زمانہ Clickکا نہیں Blinkکا ہوگا یعنی آنکھ Blink کرتی جائے گی اور آپ بات کرنے سے کسی جگہ جانے اور کچھ خریدنے سے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی، چیزوں کی اصل قیمت اور اصل منافع تک سب کچھ جان رہے ہوں گے یعنی کوئی آپکو دھوکہ نہیں دے سکے گا‘‘ اور آنکھوں کے ذریعے سب کچھ کرنا مطلب یہ Blink Systemکام کیسے کرتا ہے یہ آپ سائنس فکشن فلم ٹرمینیٹر میں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اب تو امریکی فوجیوں کے ہیلمٹ میں انٹرنیٹ اور کیمرہ یوں لگ چکا کہ جب فوجیوں کی نظر کسی پر پڑے تو اگلے ہی لمحے انہیں پتا چل جائے کہ سامنے دوست ہے یا دشمن ۔
اتنا کہہ کر امریکی باپ اور جاپانی ماں کے گھر پیدا ہونے والےPopularizerآف سائنس پروفیسر میچیو نے رک کر بے حس وحرکت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر خودکو دیکھتے حاضرین کی آنکھوں میں لمحہ بھر کیلئے جھانک کر دوبارہ بولنا شروع کیا ’’وہ وقت بھی آنے والا کہ جب ہماری پوری زندگی ڈ یجیٹلائز ہوجائے گی ، آج آپ پیسوں یا بنک کارڈ سے خریداری کرتے ہیں، مستقبل میں یہ سب بھی آپ اپنی آنکھ Blinkکرکے خریدلیں گے، پھرقانونی رائے لینے سے کسی بیماری کے حوالے سے جاننے تک 99فیصد سوالوں کے جواب آپکو گھر بیٹھے بٹھائے ملا کریں گے اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے تو آنے والی دنیا ایسی انقلابی ہوگی کہ آج جیسے گلی گلی محلے محلے میں مشینوں کے پرزے اور خوب صورت ماربل بن رہے ہیں، مستقبل میں نہ صرف ایسے انسانی اعضاء بن رہے ہوں گے، نہ صرف ایسے مصنوعی کان اور ناک بنیں گے کہ جو ایک خاص وقت کے بعد خود بخود انسانی جسم کا حصہ بن جائیں گے اور نہ صرف جلد ، خون ، دل کی شریانیں ،جگر اور لبلبہ تک بنا ئے جارہے ہوں گے بلکہ Chipاور ٹی وی کیمرہ گولی کی صورت میں نگلنے کے بعد پھر اس Chipاور کیمرے کے ذریعے انسان کے اندر یوں مانیٹرنگ ہو گی کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بیماری کا بیماری سے پہلے ہی پتا چل جائے گا ۔
یہاں پہنچ کر دنیائے فزکس کے اس اپنی طرز کے اکلوتے سائنسدان پروفیسر کاکو نے ڈائس پر پڑا پانی کا گلاس اُٹھاکر اسے ایک سانس میں پیا اور ٹشو منہ پر رکھ کر ہلکی آواز میں کھنکھارکر گلا صاف کرنے کے بعد اپنی بات پھر سے شروع کی ’’ آجکل مشینیں یہ تو بتا رہی ہیں کہ سامنے بیٹھا شخص سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن آنے والے وقتوں میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے نہ صرف دماغی علاج ہوگا، انسانی جذبات واحساسات معلوم ہو سکیں گے نہ صرف انسانی یادداشت کو Chipپر محفوظ کر کے اسے بوقتِ ضرورت چند سیکنڈز میں Recall بھی کیا جا سکے گابلکہ فوت ہوچکے لوگوں سے گفتگو بھی ممکن ہو گی‘‘ اور ہاں اس وقت دنیا کی سب سے چھوٹی MRIمشین بریف کیس جتنی لیکن مستقبل میں MRIمشین موبائل فون جتنی ہو گی اور آج تو ہم اپنے موبائل فون پر Typingکرتے ہیں لیکن مستقبل میں ہمارا سب کچھ E-Paper ہوگا ، اسی کو چھوٹا کرکے میز پر لگا کر آفس کاکام،بڑا کرکے کمرے کی دیوار پر لگا کر ٹی وی اور فولڈ کر کے موبائل فون اور آخری بات جو میں ضرور بتانا چاہوں گا وہ یہ کہ آج کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ Electricityلیکن مستقبل میں Electricityنہ صرف ہماری زند گیوں بلکہ یہ لفظ English Languageسے ہی نکل جائے گا ، یہ کیسے ۔۔اس کیلئے آپکو انتظار کرنا ہو گا ۔۔اور سچی بات یہ کہ مجھے یہ پتا تو نہیں کہ یہ سب کچھ آپکی زندگی میں ہو پاتا ہے یانہیں لیکن مجھے یہ یقین ضرور کہ یہ سب کچھ آپکے بچوں کی زندگیوں میں لازمی ہوگا ۔
مستقبل میں سائنس کے گھوڑے دوڑانے والے اور’’ فزکس آف دی امپاسبل ،فزکس آف دی فیوچر اور دی فیوچر آف دی مائنڈ ‘‘جیسی تہلکہ خیز کتابوں کے مصنف پروفیسر میچیو کا اِدھر لیکچر ختم ہوا تو اُدھر میرا دماغ چل پڑا اور پہلا خیال یہی آیا کہ دنیا کہاں سے کہاںجا پہنچی اورہم کہاں سے کہاں آن پہنچے ، کیا وقت تھا کہ جب آٹھویں صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی تک علم ، تحقیق ،ایجاد، فلسفے اور دانش میں مسلمان چھائے ہوئے تھے جبکہ مغرب تاریکی میںڈوبا ہوااور دنیا کا پہلا کیمرہ متعارف کروانے والا ابن الہیشم ہو یا کشش ثقل کی درست پیمائش اور کیلنڈر ایجاد کرنے والا عمر خیام ، آنکھ پر روشنی کے مضراثرات اور آپریشن سے پہلے بے ہوش کرنے کا طریقہ بتانے والا زکریا الرازی ہو یا الجبرے کا باپ موسیٰ الخوارزمی، بابائے ارضیات ابنِ سینا ہو یا دانتوں کا پہلا باقاعدہ ڈاکٹر اور آنکھ ،کان اور پتے کی سرجری میں استعمال ہونے والے 3اہم آلات کا بانی ابوالقاسم الزہراوی ہو ، علمِ اعداد اور جدید ریاضی کا ماہر اور مریضوں کو دی جانے والی ادویات کی درست مقدار بتا نے والا یعقوب الکندی ہو یا دنیا کو روشنی کی رفتار کا آواز کی رفتار سے تیز ہونے کا بتانے والا اور زمین ،چاند ، ستاروں اور سیاروں کی حرکات اور خصوصیات سے آگاہ کرنے والا البیرونی ہو ، یہ سب مسلمان اور یہ تو صرف چند نام، اسکے علاوہ سائنس کے بیسیوؤں مسلمان ماہر اور بھی، لیکن یہاں تک تو سب کو معلوم مگر یہ بہت کم لوگوں کے علم میں کہ مسلم سائنس کی ٹانگیں تب کٹیں جب مبینہ طور پر ایک مشہور امام نے نمبروں کے ساتھ کھیلنے مطلب Mathematicsکو شیطانی کام قرار دیدیا گو کہ اقتدار کی جنگوں ، آپس کی چپقلشو ں اور عیاشیوں سمیت کئی اور وجوہات بھی ضرور تھیں کہ جن کی بناء پر مسلم دنیا سائنسی علوم سے دور ہوتی گئی مگر اس مشہور امام کے اس اقدام کے بعد جہاں پڑھا لکھا طبقہ منتشر خیالی کا شکا رہوا وہاں پھر وہ طبقہ سائنس پر حاوی ہوگیا کہ جو نہ صرف خود سائنس کی ترویج کا مخالف تھا بلکہ اس نے مذہب کی آڑ میں تحقیق اور ایجاد کو یوںلپیٹا کہ مسلم سائنس کا باب ہی بند ہو گیا ،ذرا اس طبقے کی چالا کی تو دیکھیے کہ جب پرنٹنگ پریس آئی تو شیخ الاسلام سے اسے ایسے حرام قرار دلوایا کہ پھر پرنٹنگ پریس مسلمانو ں کے لئے 235سال تک حرام رہی ، جہاز اس وجہ سے حرام ٹھہرا کہ اتنی اونچائی پر جانا تو قدرت کو للکارنے کے مترادف، ریڈیو اور ٹی وی اس لئے حرام ہوئے کہ یہ شیطانی آلے، کیمرے پر فتوے لگے، انجکشن پر اعتراض ہو ااور کل کو چھوڑیں آج بھی یہی طبقہ کبھی خون کی منتقلی پر اعتراض کر ے تو کبھی جنیٹک انجینئرنگ اور بالوں کی پیوند کاری کو ناجائز قرار دے ، یہی وجہ کہ مسلمانوں کی تحقیق اور ایجادات کو بنیاد بناکر گزشتہ 100 سالوں میں ڈیڑھ کروڑ آبادی والے یہودی تو سائنس میں 25نوبل پرائز لے لیں مگر سائنس کے چیمپئن مسلمان اس طرح نااہلیوں ، نالائقیوں ، کمزوریوں اورفتوؤں میں الجھیں کہ ڈیڑھ ارب ہو کر بھی گزشتہ 100سالوں میں صرف 2 نوبل پرائز لے سکیں ، دوستو ڈیڑھ ماہ پہلے پروفیسر میچیو کے لیکچر سے اب تک میں مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ ماڈرن سائنس میں ایک بھی Contributionنہ کرنے والے ہم مسلمانوں کے بچے جب پروفیسر میچیو کی سائنس اور ٹیکنالوجی والی دنیا میں جائیں گے تو پھر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر وہ ہم نااہل اورنالائق فتویٰ بازوں کی کارکردگی پر کیا فتویٰ دیں گے۔ آپ بھی سوچئے گاٖ!
تازہ ترین