• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایس آئی پاکستان کی عظیم ایجنسی ہے جو دنیا کے صفِ اول کے انٹیلی جنس اداروں میں سرفہرست ہے۔ آئی ایس آئی کا کردار ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے دفاعی اداروں کے لئے انتہائی اہم ہے۔ آئی ایس آئی کا اندرون و بیرون ملک پاکستان کے دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈے کو روکنے میں اہم کردار ہے۔ اس ادارے میں شامل ہر فرد وہ خاموش مجاہد ہے جو پاکستان کے دفاع کے لئے ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مصروفِ جہاد رہتا ہے۔ آئی ایس آئی کے گمنام شہداء کی الگ کہانی اور طویل فہرست یقیناً موجود ہوگی۔ ملکی دفاع میں دفاعی اداروں کے ساتھ ساتھ اس عظیم ادارے کی بےلوث خدمات کی پوری قوم معترف ہے۔ اور اس ادارے کا یہی کردار ملک دشمن عناصر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لئے بعض نام نہاد پاکستانی پاکستان دشمن ممالک اور اداروں سے مالی فوائد کے حصول کے لئے پاکستانی دفاعی اداروں اور آئی ایس آئی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔

آج کل برطانیہ میں مقیم بعض ملک دشمن عناصر سرگرم ہیں۔ جو خود ساختہ نام نہاد انسانی حقوق اور دیگر ناموں سے موسوم تنظیموں اور گروپس کے لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ قبل لندن میں اسی طرح کے ایک گروپ نے پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ کیا اور پاکستان اس کے دفاعی اداروںکے خلاف نعرے بازی کی اور ہائی کمیشن کے ارکان و اہلکاروں کو دھمکیاں دیں۔ اس مذموم حرکت کا مقصد افغانستان میں امن عمل کو سبوتاژ کرنا اور پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ یہ احتجاج بھارت کی پشت پناہی سے کیا گیا۔ اس طرح ایک بار پھر لندن ہی میں ایک شرپسند اور ملک دشمن گروہ کی طرف سے پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بولنے کی ناپاک کوشش کی گئی۔ اس شرپسندی کو مبینہ طور پر جموں و کشمیر گلگت بلتستان لداخ مساوات پارٹی نامی گروپ کی حمایت حاصل تھی جس کی خود ساختہ لیڈر پروفیسر سجاد مقیم برطانیہ نے اس حملے کے بعد ایک ٹوئٹ کے ذریعے اعتراف بھی کیا۔ برطانوی حکومت پاکستانی ہائی کمیشن اور وہاں مقیم سفارتکاروں، اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنائے اور ایسے شرپسند گروہوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے اور ایسے گروپس اور اہم ارکان پر پابندی لگائے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ اور وزارتِ قانون کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔

پاکستانی ہائی کمیشن پر اس حالیہ حملے کی بنیاد ایک نام نہاد تنظیم کی کینیڈا میں مقیم خاتون کی گمشدگی اور قتل کو بنایا گیا تھا۔ اس 28سالہ خاتون کا نام کریمہ محراب ہے۔ جو بلوچستان کے علاقہ کیچ میں پیدا ہوئی اور کچھ عرصہ قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہوئی تھی۔ جس کی لاش 22دسمبر 2020کو ٹورنٹو میں ملی تھی۔ یہ خاتون 2015سے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو ہی میں مقیم تھی۔ کریمہ بلوچ کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دشمن ملک کی اشیرباد سے آزاد بلوچستان کے لئے سرگرم تھی۔ کچھ عرصہ قبل یہ خبریں بھی گردش میں رہیں کہ اس خاتون کے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ مبینہ قریبی رابطے تھے لیکن کچھ مہینوں سے کسی لین دین اور اس کی سرگرمیوں کی وجہ سے مذکورہ بھارتی ایجنسی سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ مبینہ طور پر ایجنسی نے اس کو دھمکیاں بھی دی تھیں۔ بھارتی ایجنسی را کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ اختلاف کی صورت میں اپنے لئے کام کرنے والوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ عین ممکن ہے کہ کریمہ بلوچ کے قتل میں وہی محرکات اور کردار ملوث ہوں۔ بہرحال کینیڈین پولیس مصروف تفتیش ہے اور جلد اصل حقائق سامنے آنے کی امید ہے۔ ٹورنٹو میں مقیم کریمہ بلوچ کے قریبی دوست لطیف جوہر نے بھی اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ نیوز ایجنسی کے ساتھ بات چیت میں کریمہ بلوچ کے خود کشی کے امکان کو رد کیا۔ دوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ جس کو دہشت گرد اور قاتل ایجنسی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اپنے حواریوں اور مکروہ پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ قتل پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ بھی کینیڈا میں مذکورہ خاتون کے قتل کو بنیاد بنا کر کیا گیا۔ بھارت کی پشت پناہی پر اس کے نام نہاد پاکستانی حواری اس قتل کو پاکستانی اہم ادارے کے ذمہ لگانا چاہتے تھے جس کا مقصد پاکستانی دفاعی اداروں کو بدنام کرنا اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے انسانیت دشمن کردار پر پردہ ڈالنا تھا۔

ایسے اور بھی کئی کردار اندرون اور بیرونِ ملک پاکستان مخالف پروپیگنڈے اور پاکستانی دفاعی اداروں کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ آئی ایس آئی ایسے عناصر کے سامنے ایک مضبوط دیوار ہے۔ کریمہ بلوچ کوئی ایسی اہم شخصیت نہیں تھی اور نہ ہی کسی کو قتل کرنا آئی ایس آئی کا شیوہ ہے۔ آئی ایس آئی ایسے کرداروں کے منفی اور مذموم پروپیگنڈہ کے خلاف سرگرم عمل ادارہ ہے۔ کریمہ بلوچ تو ابھی بچی اور ناپختہ ذہن تھی۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں اور بہت سے کردار جو نام نہاد پاکستانی کہلاتے ہیں پاکستان کے خلاف ایک عرصہ سے مصروف ہیں اور ابھی بھی زندہ ہیں۔ ایسے کرداروں کو بھی معلوم ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ آئی ایس آئی سے نہیں بلکہ انہی کے ’’حامیوں‘‘ سے رہتا ہے۔

تازہ ترین