• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باقی باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے ایک واقعہ سن لیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر یہی کوئی انیس بیس برس ہو گی ہم اپنے ایک دوست کے بھائی کو ایچی سن کالج کے ہاسٹل میں ملنے کے لئے گئے، وہاں نماز کا وقت ہو گیا، میرا دوست عارف مرحوم پکا نمازی تھا اور نماز بھی با جماعت ادا کرتا تھا، ہم دوست جب مسجد میں پہنچے تو نماز ہو چکی تھی، عارف نے کہا کوئی بات نہیں ہم چھ سات لوگ ہیں، ہم میں سے ایک امامت کرے اور امامت کے لئے جسے منتخب کیا گیا وہ میں تھا، اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے مجھے ایک شرارت سوجھی، میں نے سوچا آج یہ سب پھنسے ہوئے ہیں کیوں نہ ان سے اگلے پچھلے سارے بدلے چکائے جائیں، چنانچہ مجھے جتنی طویل ترین آیات یاد تھیں وہ میں نے تلاوت کیں۔ دس دس منٹ تک رکوع اور سجدے سے سر نہ اٹھایا۔ کوئی پندرہ منٹ دروانیئے کی دعا مانگی اور جب اس کام سے فراغت کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو جن دوستوں کو زچ کرنے کے لئے میں یہ سب کچھ کر رہا تھا وہ بدبخت مسجد سے باہر کھڑے کھڑکھڑ ہنس رہے تھے۔
یہ درد ناک واقعہ میں نے آپ کو اس لئے سنایا ہے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے کسی اور تو اور کبھی لمبا مضمون لکھنے تک کا رسک نہیں لیا، چنانچہ آج بھی میں کم سے کم گفتگو کروں گا۔ ویسے اس کی کچھ وجوہ بھی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ زیر نظر ناول انگریزی میں لکھا گیا ہے اور انگریزی میری ”ماسٹری“ زبان ہے، ماسٹری زبان وہ ہوتی ہے جو سکول ماسٹر ڈنڈے کے زور پر سکھاتے ہیں اور ڈنڈے کی زبان چونکہ سب سمجھتے ہیں اس لئے انگریزی سمجھانے بلکہ اس کی برتری منوانے کے لئے بھی ڈنڈے کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ انگریزی زبان کے بے شمار فائدے ہیں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ انگریزی بولنے والوں سے دیسی قسم کے لوگ دور رہتے ہیں چنانچہ صاحب لوگ ان کے پسینے کی بو سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ انگریزی بولنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کوئی عام پڑھا لکھا شخص آپ سے بحث کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا، اس کے باوجود اگر کوئی سر پھرا بحث پر تل ہی جائے تو آپ نہایت آسانی سے اسے Slang میں دو چار صلواتیں سنا کر چپ کروا سکتے ہیں، بے شک Slang کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا۔ انگریزی کے استعمال کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ مجھ ایسے اردو میڈیم لوگوں کو شیکسپیئر کے ڈائیلاگ سنا کر بآسانی متاثر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ مجھے متاثر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ میں پہلے سے ہی ان متاثرہ عوام میں شامل ہوں جن کے مسائل کے حل کے لئے ہمارے بیورو کریٹس دن رات فائلوں میں انگریزی میں نوٹنگ ڈرائنگ کرتے رہتے ہیں اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو داد دے کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ انگریزی کا ایک فائدہ انور مسعود نے بھی بیان کیا ہے اور وہ کچھ یوں ہے۔ #
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہئے
اس کے باوجود میرا جی چاہتا تھا کہ میں زیر نظر کتاب پر انگریزی میں مضمون لکھ کر کسی انگریزی اخبار میں شائع کراؤں تاکہ میری انگریزی پڑھ کر لوگوں کو علم ہو کہ میں انگریزی کے خلاف نہیں، انگریزی میرے خلاف ہے۔ بہرحال آج میں بہت متاثر ہوا ہوں لیکن کسی بیورو کریٹ سے نہیں بلکہ ایک لکھاری سے اور لکھاری بھی وہ جس نے خوبصورت انگریزی میں کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا نام ہے Happy Things In Sorrow Times اور مصنفہ ہیں تہمینہ درانی جب میں نے یہ کتاب پڑ ھی تو پہلا تاثر یہ ابھرا کہ تہمینہ درانی کو یہ کتاب اردو میں لکھنی چاہئے تھی تاکہ افغان جنگ کے پس منظر میں لکھی جانے والی ایک بچی کی یہ درد انگیز مگر حوصلہ دینے والی یہ کہانی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کروڑوں اردو دانوں کے دلوں پر بھی اثر انداز ہوتی۔ کتاب "My Feudal Lord" کا انتالیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ مصنفہ کے ذہن میں یہ کتاب انگریزی میں لکھنے کا مقصد اگر یہ تھا کہ اس مسئلے کو بین الاقوامی برادری کی توجہ حاصل ہو سکے گی تو انہیں اعتماد ہونا چاہئے کہ یہ کتاب بھی بیسٹ سیلر ثابت ہوتی جس کا ترجمہ انگریزی سمیت کئی زبانوں میں کیا جاتا۔
Happy Things In Sorrow Times ایک ایسی افغان بچی کی کہانی ہے جس کا سارا خاندان جنگ کے دوران سوویت یونین کی بمباری میں ہلاک ہو جاتا ہے بسرابعہ نام کی یہ بچی جس دکھ کرب اور اذیت سے دوچار ہو کر زندگی گزارتی ہے، اس کی تصویر کشی تہمینہ نے بے حد درد مندانہ انداز میں کی ہے سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ مجاہدین کی مزاحمت، افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پھول جیسے نازک بچوں کا مہاجر کیمپوں میں دردناک زندگی گزارنا، طالبان کا افغانستان پر قبضہ، 9/11کے واقعات اور وہ تمام قتل وغارت گری جو ان تین دہائیوں میں افغانستان میں ہوئی جس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا، اس کا کرب تہمینہ کی اس کتاب کے ایک صفحے اور ہر ایک سطر میں ملتا ہے ۔ یہ کہانی خاص طور پر جنگ میں متاثر ہونے والے بچوں کے حوالے سے لکھی گئی ہے جس میں تہمینہ نے جنگ کی ہولناکیوں سے پردہ اٹھایا ہے اور عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن محترمہ تہمینہ درانی کو شائد یہ علم نہیں کہ عالمی برادری میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ ضمیر انہیں گناہ سے نہیں روکتا، صرف گناہ کا مزہ کرکرہ کرتا ہے ۔ یہ وہ عالمی برادری ہے جس کا سردار امریکہ ہے اس امریکہ نے جب عراق پر پابندیاں لگوائیں تو ادویات نہ ملنے کی وجہ سے پانچ لاکھ عراقی بچے مر گئے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ سے جب ان پابندیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے پانچ لاکھ بچوں کے بارے میں کسی صحافی نے سوال کیا تو البرائٹ نے جواب دیا۔
”I Think that was worth it“ سو تہمینہ درانی صاحبہ آپ کا کرب اور دکھ اپنی جگہ مگر آپ ان اقوام کے بارے میں اگرچہ کوئی حسن ظن نہیں رکھتی جن کے نزدیک لاکھوں معصوم جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ، تاہم ابھی ان کی سوچ اور رویوں کے بہت سے پہلو سامنے لانے کی ضرورت ہے! انشاء اللہ یہ کام بھی محترمہ ہی کریں گی اور پہلے سے زیادہ قوت اور اثر انگیزی کے ساتھ کریں گی۔
بربریت کی ایک انتہا یہ ہے کہ دوسری انتہا وہ ہے جس کا آج کل بطور قوم ہمیں سامنا ہے یہ بھی افغان جنگ کا ہی شاخسانہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں ۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں خودکش بمبار بچہ اپنے جسم پر بم باندھ کر نکلتا ہے اور دوسرے معصوم بچوں کی جان لے لیتا ہے، اس موضوع پر آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کارہ شرمین عبید نے ایک ڈاکو مینٹری بنائی تھی جس کا عنوان تھا "Children Killing Children"لہٰذا تہمینہ درانی صاحبہ ہم ایک ایسی عفریت کا شکار ہیں جہاں معصوم بچے ہی نہیں، بے گناہ مرد ، عورتیں، سکول جاتی طالبات ، ہسپتال میں کام کرنے والی نرسیں ، ہمارے فوجی اور پولیس کے جوان، آئے روز اپنی جانیں گنواتے ہیں اور اپنے پیاروں کو ایک نہ ختم ہونے والی اذیت دے جاتے ہیں ۔ میری تہمینہ درانی سے ایک گزارش اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک کتاب وہ پاکستان میں جاری اس جنگ کی ہولناکیوں پر بھی لکھیں جہاں صرف دہشت گرد ہی نہیں بستے بلکہ ان کی سفاکانہ کاروائیوں کا دفاع کرنے والے بھی رہتے ہیں جو ہر روز دہشت گردی کی کاروائیوں کی یہ تاویل دیتے ہیں کہ یہ سب ڈرون حملوں کا ردعمل ہے ۔ معصوم بچوں کا خون کرنے والوں کے حق میں اس سے زیادہ سفاکانہ دلیل دینا ممکن نہیں تہمینہ درانی کی اس کتاب کی ایک خاص بات اس میں شامل وہ خوبصورت تصویری خاکے ہیں جو غالباً تہمینہ نے خود بنائے ہیں، اگر ایسا ہے تو اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی ۔ میرا تو مشورہ ہو گا کہ وہ باقاعدگی سے کسی اخبار کے لئے خاکے بنائیں ، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ شہباز شریف صاحب دوبارہ اخبار پڑھنا شروع کر دیں گے ۔
میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ افغان جنگ کے تناظر میں لکھے گئے اس ناول کو اردو میں ہونا چاہئے تھا تاہم قطع نظر میری اس رائے کے تہمینہ درانی کی انگریزی زبان پر گرفت نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ ان کی تحریر میں غضب کا تخلیقی عنصر شامل ہے ۔ کہیں کہیں البتہ انہوں نے بچوں کے کرداروں سے ایسی گفتگو کروائی ہے جو شائد قاری کو حقیقی محسوس نہ ہو تاہم مجموعی طور پر لفظوں کا چناؤ اور زبان کا بہاؤ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ تہمینہ درانی اپنی کتابوں کو بیسٹ سیلربنانے کا ہنر جانتی ہیں ۔ میری دعا ہے کہ
as a citizen of the worldکے طور پر جو کوشش انہوں نے اس کتاب میں عالمی طاقتوں کا ضمیر جگانے کے ضمن میں کی ہے وہ بار آور ثابت ہو اور دنیا وہ دن دیکھ سکے جب تمام بچے بلا تمیز رنگ و نسل، اپنے والدین کے زیر سایہ جی سکیں اور کسی بچے کا خاندان carpet bombingخودکش بم دھماکے یا ڈرون حملے کے نتیجے میں ختم نہ ہو جائے ۔
تازہ ترین