• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت اپناچوتھا بجٹ ایک ایسے وقت پیش کررہی ہے جب مالی سال 2014، 2015 اور 2016میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمونہ صرف جنوبی ایشیا کے سات ملکوں کی اوسط سے کم رہی بلکہ پاکستان کی گزشتہ برس کی اوسط سالانہ شرح نمو سے بھی کم رہی ۔ ان ہی تین برسوں میں (الف) معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، برآمدات اوربجٹ خسارے کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے (ب) گزشتہ اور موجودہ مالی سال میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم مایوس کن حد تک کم رہا اور(ج) مالی سال2015اور2016میں برآمدات کاحجم گرتا رہا۔ حکومت نے ایک طرف عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں کمی کا فائدہ پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کیا اور دوسری طرف قومی بچت اسکیموں پردی جانے والی شرح منافع میں زبردست کمی کردی۔ بینکوں نے بھی اپنامنافع حیران کن حد تک بڑھا لیا مگر کروڑوں کھاتے داروں کودی جانے والی شرح منافع میں زبردست کمی کردی ۔2015میںوفاق اور چاروں صوبوں نے قومی تعلیمی پالیسی2009سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے تعلیم کی مد میں350ارب روپے کم مختص کئے ۔ بینکوں نے اسٹیٹ بینک کے تعاون سے نجی شعبے کو صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے لئے قرضے دینے کے بجائے حکومت کوبجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر قرضے دینے کاسلسلہ جاری رکھا ۔یہ سب آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے،آج کل وطن عزیز میں پانامالیکس کا بڑا چرچا ہے لیکن جان بوجھ کر اس حقیقت کونظرانداز کیاجارہا ہے کہ ٹیکس چوری اور ناجائز دولت کابڑا حصہ خود ملک کے اندر جائیدادوں، گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں واسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری وغیرہ کی شکل میں موجود ہے جن کی مکمل تفصیلات بمعہ متعلقہ شخص کے قومی شناخت نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں۔یہ بات کوئی راز نہیں کہ ’’پاناما‘‘ دراصل خصوصی طور پر شہروں میں ہرقدم پر موجود ہیں۔ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ان اثاثوں کا تعین کیاجائے اور یہ اثاثے جن رقوم سے بنائے گئے تھے ان پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے اور قانون کے تحت کارروائی کی جائے تواگلے مالی سال میں تقریباً دوہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے یہ ضروری ہے کہ بجٹ میں اس اضافی رقم کی وصولی کاہدف الگ سے رکھا جائے ۔ اس اقدام سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہونگے چنانچہ رقوم کی وصولی کا یقین ہونے کے باوجود پاکستان میں اس ضمن میں بات بھی نہیں کی جارہی ۔ پاکستان سے جو دولت باہر منتقل کی گئی ہے اس کا حصہ خاصہ کم ہے یعنی150ارب ڈالر۔اس رقم کا بہت چھوٹا سا حصہ پاناما میں آف شور کمپنیز کے نام پر موجود ہے جس کی وصولی یا غلط کاری میں ملوث افراد کے خلاف جرم ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ اس کی وجوہات ہم اپنے21اپریل2016کے کالم میں بیان کرچکے ہیں ۔ اس ضمن میں تحقیقات اور کوششیں بہرحال جاری رہناچاہئیں ۔ ایک اور پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ پاکستان سے کمائی ہوئی ناجائز دولت ہنڈی کے ذریعے دوسرے ملکوں کو بھیجی جاتی رہی ہے جبکہ اس کا ایک حصہ ترسیلات کے نام پر پاکستان میں واپس لایاجاتا ہے ۔ بدعنوان عناصر باہر سے یہ ترسیلات منگوا کر ناجائز دولت سے بنائے ہوئے پاکستان میں موجود اثاثوں کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر قانونی بنارہے ہیں جبکہ اب جومزید دولت ٹیکس چوری اور کرپشن وغیرہ سے کمارہے ہیں وہ بدستور ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجی جارہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مالیاتی ایم آراو پر مبنی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4) کومنسوخ نہیں کیا جارہا اس بات کابھی ادراک ضروری ہے کہ پانامالیکس کے ضمن میں جو سیاسی پارٹیاں ہنگامہ بھی نہیں کررہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس شق اور معاشی اصلاحات ایکٹ مجریہ1992میں مناسب ترامیم کی جائیں ۔ یہ بات یقیناً چشم کشا ہے کہ2011کے مقابلے میں2016میں برآمدات کے حجم میں تقریباً 4ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جبکہ ترسیلات میں9ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان جیسے دنیا کے کسی ملک میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ یہ بات بھی نوٹ کرنااہم ہے کہ صنعت ، تجارت وغیرہ کے فروغ کے لئے بینکوں سے رقوم لے کر بڑے پیمانے پر ملک سے باہر منتقل کی جاتی رہی ہیں جبکہ قرضوں کی رقوم کو بینکوں سے معاف کرالیا جاتا ہے ۔ قرضوں کی معافی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں گزشتہ 9برسوں سے زیرالتوا ہے ۔تخمینہ ہے کہ غلط طریقوں سے معاف کرائے گئے قرضوں بمعہ مارک اپ کی مدمیں تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن تھی لیکن فیصلہ آنے میں زبردست تاخیر کی وجہ سے اب یہ امیدمعدوم ہوتی جارہی ہے ۔
موجودہ حکومت نے مالی سال2018کے لئے مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 15فیصد سے کم کرکے 13فیصد کرنے کا اعلان چند ہفتے پہلے کیا جس پر سیاسی پارٹیوں،دینی مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کاردعمل نظر ہی نہیں آیا حالانکہ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اول، اگر مسلم لیگ(ن) اور دوسری جماعتوں کے منشور پر عمل کیا جائے تو یہ تناسب20فیصد تک پہنچ سکتا تھا اور دوم، یہ ہدف حاصل کئے بغیر چین کی جانب سے اقتصادی راہداری پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود معیشت میں پائیدار بہتری آہی نہیں سکتی ۔ قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ کرپشن سے قومی خزانے کو5000ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے ۔ اب ہر طرف کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں ہورہی ہیں چنانچہ مناسب ہوگا کہ احتساب کے ساتھ اس بڑے نقصان پر ممکنہ حد تک قابو پاکر جو اضافی وسائل حاصل ہونگے انہیں بجٹ میں علیحدہ سے دکھلایا جائے ورنہ سب کچھ بے معنی ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مندرجہ بالا خرابیوں کودور کرنے کے لئے وفاق اور صوبوں کے بجٹ میں موثر اقدامات کا اعلان کیاجائے۔ اب ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنا،معیشت کو دستاویزی بنانا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا، ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں کے ضمن میں دوہزار ارب روپے کی وصولی کا علیحدہ ہدف رکھنا، ہنڈی اور حوالہ پر ممکنہ حد تک قابو پانا اور بینکوں سے غلط طریقوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کووصول کرناہوگا۔ وفاق اور صوبوں کے بجٹ میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے تعلیم کی مد میں7فیصد اور صحت کی مد میں4 فیصد مختص کرنا ہوگا۔ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ نجی شعبے کو زیادہ قرضے فراہم کریں اور حکومت کوبجٹ خسارے کوپورا کرنے کے لئے قرضے فراہم کرنے سے اجتناب کریں۔
تازہ ترین