• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت برس ہا برس رہی ہے اور آج کل بھی تیسرے نمبر پر ہے۔ اس میں جتنے تجربہ کار اور سیانے لیڈر ہیں وہ شاید ن لیگ میں بھی نہ ہوں گو یہ الگ بات ہے کہ سیانے لوگوں کی پارٹی میں آج کل کوئی سنتا نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے بعد اس پارٹی کے حالات خراب نظر آتے ہیں لیکن اتنے خراب ہوجائیں گے یہ سوچنا بھی مشکل تھا۔ آج کل کی پی پی پی میں اگر چار چوٹی کے لیڈروں کو چن لیں تو جو نام نظر آئیں گے وہ شاید اس ترتیب سے ہوں زرداری‘ خورشید شاہ‘ قائم علی شاہ اور اعتزاز احسن اب ان چار توپ لیڈروں کے بیانات ذرا سنیں اور پڑھیں تو لگے گا کہ پارٹی والوں کو الیکشن کے بعد نہ صرف سیاست بھول گئی ہے بلکہ وہ اب نہ صدارت، نہ سیاست، نہ حکومت، نہ وکالت اور نہ ہی ٹی وی پر بات کرنے کا اعتماد رکھتے ہیں۔ کچھ مثالیں ذرا غور سے دیکھیں اور خود اندازہ لگائیں۔ زرداری صاحب کا دور صدارت تو سب پر واضح ہی ہے مگر جب ایوان صدارت سے ان کے پیر صاحب کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا کہ ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے زرداری صاحب بچ گئے ورنہ سندھ کی حکومت بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتی، تو ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہونے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں بچا۔ پیر صاحب نے حکم دیا تھا کہ سمندر کے کنارے رہیں اور پہاڑوں سے دور رہیں اور اس لئے زرداری صاحب کراچی میں یا دبئی میں زیادہ وقت براجمان رہے اور سندھ بچالیا۔ اب ایوان صدارت تو اس طرح چلا گیا۔ دوسرا بیان جو پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا وہ جناب قائم علی شاہ کا تھا۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ کراچی میں بدامنی پر قابو پانے میں اس لئے بے بس ہیں کہ رینجرز کے جنرل صاحب ان کی بات نہیں سنتے‘ پولیس کے آئی جی پی اور چیف سیکریٹری کو اسلام آباد سے تعینات کیا جاتا ہے ان کی اپنی پولیس چھپتی پھرتی ہے اور دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں سو وہ بیچارے وزیراعلیٰ کیا کریں، وہ معصوم ہیں ان کو کوئی دوش نہ دے۔ جو بات وہ کہنا چاہتے تھے اور کہہ نہ سکے وہ ان کی کرسی کے نیچے بیٹھے ہوئے ایک کھٹمل نے سن لی وہ یہ تھی کہ میں بیچارہ کیا کروں اصل وزیراعلیٰ تو ایک اور صاحب ہیں اور ان کی پھوپھی جان ہیں، میں تو ایک لاوارث بزرگ ہوں اور پانچ سال کی قید باعیش و عشرت سے گزارنے کے بعد دوبارہ اسی جیل میں بھیج دیا گیا ہوں مجھ سے کوئی کسی قسم کا سوال نہ کرے۔ ہاں میں اپنی کرسی نہیں چھوڑوں گا کیونکہ جو مزے اس میں ہیں اور جو بڑھاپے کے بجائے جوانی کی طرف کھینچ کے لے جاتی ہے وہ کرسی کیسے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے بڑے میاں آپ جو شکایتیں اب کررہے ہیں وہ جائز ہوسکتی ہیں مگر جناب پچھلے سال تو آپ کے اور آپ کی پارٹی کے پاس صدارت بھی تھی‘ وزیراعظم بھی آپ کا تھا‘ وزیر داخلہ بھی آپ کے بڑے دبنگ خان تھے‘ رینجرز پر بھی مکمل کنٹرول تھا اور آئی جی پی اور چیف سیکریٹری بھی آپ کا ہی لگایا ہوا تھا اور سب سے بڑھ کر سندھ میں کوئی حزب اختلاف ہی نہیں تھی اور متحدہ بھی حکومت میں تھی تو ان سالوں میں جناب شاہ صاحب کو کس نے روکا کہ وہ بدامنی پر قابو نہ پائیں، ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کو نہ روکیں، بھتہ خوری بند نہ کرائیں اور کراچی میں جو مختلف مافیا بن گئی ہیں ان پر کنٹرول نہ کریں۔ جواب پھر اسی کرسی کے نیچے بیٹھے کھٹمل نے دیا کہنے لگا بھائی شاہ صاحب وزیراعلیٰ ضرور ہیں اقتدار اعلیٰ ان کے پاس نہیں اور جن کے پاس ہے ان کو ان ساری باتوں سے کوئی سروکار نہیں، بات سمجھ میں آگئی مگر افسوس اس بات پر ہے کہ 85 سالہ شاہ صاحب جو پی پی پی کا قیمتی سرمایہ ہیں اب حکومت میں ایسے بیان دے رہے ہیں جیسے بے بس اور بے جان یتیم بچے کھانے یا پانی کے لئے فریاد کرتے ہیں معذور فقیر سڑک کے کنارے بھیک مانگتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
تیسرے بڑے پی پی پی کے لیڈر خورشید شاہ صاحب جو اب قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میں بن چکے ہیں اور جو سمجھدار ترین اور سینئر ترین جیالوں میں شامل ہیں۔ فرماتے ہیں اگر سوئس کیسوں میں پی پی پی کا گلا دبادیا گیا تو آنکھیں باہر نکل آئیں گی یعنی اگر کسی چور کی چوری پکڑنے کی کوشش کی گئی تو سندھ کارڈ آنکھیں دکھاتا آدھمکے گا۔ جناب کہیں اور نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ جب ان کی حکومت نے پانچ سال ن لیگ کے کیس دباکر رکھے تو اب ن لیگ ان کے کیس کیوں کھولنے جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مان رہے ہیں کہ جو مُک مُکا ہوا تھا اس پر قائم رہیں اور یہ لوٹ مار کی باتوں پر دھیان نہ دیں یہ تو ہم سب کا حق ہے ورنہ سیاست میں آنے اور جیلوں کی ہوا کھانے اور لوگوں کی باتیں سننے کی ہمیں کیا ضرورت ہے۔ خورشید شاہ صاحب کی دلیل سیاسی تو نہیں کہی جاسکتی مگر چوروں کے درمیان جو بھائی بندی کا ایک معاہدہ ہوتا ہے اس کی خلاف ورزی کی شکایت ضرور نظر آرہی ہے یعنی وہ کہتے ہیں اگر سوئس کیس کو چلایا گیا تو سندھ میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ اب سندھ کے لوگ کیا صرف ایک سوئس بنک اکاؤنٹ میں برسوں سے جمع شدہ اور کئی سالوں پہلے نکالے گئے 6 کروڑ ڈالر کی خاطر ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے کو تیار ہیں، ایسا ہوتا تو نظر نہیں آتا مگر پی پی پی کی قیادت یہی کہہ رہی ہے۔ چوتھے بڑے لیڈر اعتزاز احسن صاحب آج کل بھی الیکشن کی شکست کے شاک سے باہر نہیں نکلے۔ انہوں نے ایک بیان دیا کہ وزارت قانون کا دوسرا خفیہ خط جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے وہ چائے کی پیالی میں طوفان کے برابر ہے کیونکہ وہ حکومت نے اپنے وکیل کو جنیوا میں لکھا ہے اور عدالت میں کسی بھی وکیل اور اس کے موکل کے درمیان ہونے والی بات چیت اور خط و کتابت کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں صرف اتنا جناب اعتزاز سے پوچھ لیا کہ اگر وہ موکل اور وکیل کے درمیان خط تھا تو وکیل نے اسے سوئس حکام کے حوالے کیسے کردیا۔ اس سوال پر اعتزاز صاحب بہت برہم ہیں اور انہوں نے مجھے ٹی وی پر 3 گھنٹے کا مناظرہ کرنے کا چیلنج بھی دے دیا ہے۔ اب میں بڑی مشکل میں ہوں کہ اگر ہاں کردوں تو کون سا چینل 3 گھنٹے مجھے برداشت کرنے کو تیار ہوگا کیونکہ اعتزاز صاحب تو بڑے لیڈر ہیں اور میں نے ان کی 8 گھنٹے کی تقریر بھی سنی ہے سو وہ تو 3 گھنٹے بول لیں گے، میں تو دو چار سوال کرکے خاموش ہوجاؤں گا۔ سو بہتر ہوگا کہ پہلے اعتزاز صاحب کسی ٹی وی چینل سے طے کرلیں کیونکہ جیو پر وہ یہ مناظرہ نہیں کرنا چاہتے اب کوئی چینل تیار ہوجائے 3 گھنٹے ہمیں دینے کو تو آگے کی سوچیں گے۔ مگر میں حیران ہوں کہ ایک چھوٹے سے سوال پر اتنا ردعمل کیوں۔ کیا اب پی پی پی کی قیادت اسی قسم کے بیانات اور مسئلے اٹھائے گی یا وہ ایک قومی پارٹی کی طرح ملک کے مسائل کی طرف توجہ دے گی یا ذاتی اور چھوٹے نان ایشوز (Non Issues) پر اپنا وقت ضائع کریں گے۔ اعتزاز صاحب بڑے وکیل اور بڑے لیڈر ہیں اور ان کو ایسی چھوٹی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔
تازہ ترین