• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14 اگست 1947ء کو جب پورے پاکستان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جا رہا تھا تو تب ملتان میں میرے والد محترم سید علمدار حسین گیلانی نے سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں کہیں بھی پاکستان کے خلاف بات ہوتی ہے، پاکستان کے لوگوں کے خلاف سازش ہوتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے اس پر کھل کر اظہار خیال کروں۔ میرا تعلق اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے لیکن میری اصل وفاداری پاکستان سے ہے، پاکستان کے عوام سے ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات سے ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کی قیادت نہ کرتے تو آج دنیا کے نقشے پر پاکستان موجود نہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا کہ ان کی شخصیت متفق علیہ ہے اور جب میں سوچتا ہوں کہ آزادی کے 64 سال بعد ہم قائد کے پاکستان اور قائد کی یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
قارئین کرام! 9 مئی 2013ء کو میرے پیارے لخت جگر علی حیدر گیلانی کو اغوا کیا گیا اسی صدمے کی حالت میں میرے خاندان نے بڑی ہمت کے ساتھ 11 مئی کا الیکشن لڑا لیکن میرے خاندان کے کسی فرد نے پاکستان کے خلاف بات نہیں کی۔ میرے دروازے آج بھی علی حیدر گیلانی کے منتظر ہیں۔ اس کا ڈیڑھ سال کا معصوم بیٹا ہم سے سوال کرتا ہے کہ میرے بابا کب آئیں گے؟ میں خاموش ہو جاتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ میری خاموشی میں ہی سب باتیں پنہاں ہیں لیکن میرے صبر کا پیمانہ 15 جون 2013ء کو لبریز ہوتا ہے جب بلوچستان کے شہر زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی کو دہشت گرد تباہ کرتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ قائداعظم ریذیڈنسی کو تباہ نہیں کیا گیا میرے دل کے اندر قائداعظم کا جو ایک خوبصورت محل تعمیر تھا وہ دہشت گردوں نے مسمار کر دیا ہے۔ اس موقع پر ڈیوٹی پر موجود جو گارڈ تھا وہ شہید ہو گیا۔ وہ شہید ہونے والا گارڈ مجھے ان شہداء سے مختلف نہیں لگتا جو تحریک پاکستان کے دوران جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ 15 جون کے اخبارات میں جب میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملے کی خبر پڑھتا ہوں تو مجھے اپنا وہ حکم یاد آ جاتا ہے جو میں نے 1989ء میں بطور وزیر ثقافت جاری کیا تھا کہ وزیراعظم ریذیڈنسی زیارت اور وزیر مینشن کراچی کو قومی ورثہ قرار دے کے اس کی تزئین و آرائش کرواتا ہوں، قائد کی چیزوں کو محفوظ کرتا ہوں اور پھر جب میرے حکم کے بعد ان دونوں جگہوں کی تزئین و آرائش ہو گئی اور پھر میں بلوچستان جا کر قائداعظم ریذیڈنسی جاتا ہوں۔ معلوم نہیں میں جب بھی وہاں گیا مجھے یوں لگا جیسے ان چیزوں سے (جو قائداعظم سے منسوب ہونے کی وجہ سے محفوظ تھیں) قائداعظم کی خوشبو محسوس کرتا تھا کہیں پر قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، کراکری، مادر ملت کا کمرہ، ان کے ذاتی معالج کا کمرہ، ڈرائنگ روم، کھانے کے کمرے کی ایک الماری، میرے قائد کی کی نایاب تصاویر، یہ سب چیزیں دیکھ کر مجھے ایک اطمینان ہوتا تھا کہ شکر ہے کہ ہم نے بانی پاکستان کی ہر چیز محفوظ کر رکھی ہے۔ میرے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ دہشت گردوں کو میرے قائد سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ میں جب وزیراعظم تھا تو میں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ میری ہر تقریر کا آغاز قومی ترانے سے ہوا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں پاکستان کا واحد وزیراعظم ہوں جس کی ہر سرکاری و غیر سرکاری تقریب کے آغاز پر قومی ترانہ بجایا جاتا تھا۔ خاص طور پر جب میں بلوچستان جاتا تھا تو میری خصوصی ہدایت ہوتی تھی کہ میری ہر تقریب پر پاکستان کا پرچم نمایاں طور پر لہرایا جائے اور حاضرین محفل کو جو قومی ترانہ سنوایا جائے اس کے بول سب مل کر پڑھیں اور میں نے اپنے دور میں اس پر خصوصی توجہ کی لیکن مجھے افسوس اور دکھ سے یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ جب قائداعظم ریذیڈنسی پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں قومی اسمبلی میں اراکین نے آواز بلند کی تو سپیکر قومی اسمبلی نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ صوبائی معاملہ ہے اور اس مسئلہ کو بلوچستان حکومت دیکھے گی تو میرے لبوں پر بے ساختہ یہ شعر آ گیا:
غم یہ نہیں کہ قوم کی میراث جل گئی
غم یہ ہے کہ ملک میں ماتم نہیں ہوا
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان مسلم لیگ کے نومنتخب وزیراعظم میاں نواز شریف فوری طور پر خود زیارت جاتے اور وہاں جا کر قائداعظم کے گھر پر جو حملہ کیا گیا ہے، مذمت کرتے، لیکن بات تو وہی ہے نہ کہ یہاں پر ہر شخص بے خبری کی زندگی میں زیادہ خوش رہنا چاہتا ہے۔ اسمبلی کے فلور پر مذمت کرنا بڑا آسان کام ہے لیکن قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ نہیں بلکہ قوم کے ایک ایسے اثاثے کو خاکستر کیا گیا ہے جو دوبارہ ہمیں نہیں ملے گا۔ قائداعظم ریذیڈنسی کو تباہ و برباد کرنے کے بعد جس انداز سے انتہا پسندوں نے اپنا پرچم لہرایا وہ اور افسوسناک بات ہے۔ آج اس واقعہ کو گزرے دو ہفتے ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک ذمہ داران کا تعین نہیں ہو سکا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ نہیں بلکہ یہ سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا اغوا ہے جس کے بارے میں تادم تحریر نہ تو چیف جسٹس نے نوٹس لیا ہے اور نہ ہی نومنتخب حکومت کے کسی ذمہ داران نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ بات کر رہا تھا قائداعظم ریذیڈنسی پر حملے کی کہ جس کے بارے میں حکومت نے یہ کہا ہے کہ ہم ریذیڈنسی کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ ان کا یہ کہنا سر آنکھوں پر ہے لیکن دہشت گردوں کے ذہن کی تعمیر نو کس نے کرنی ہے؟ یہ آج کے حالات کا سب سے اہم سوال ہے۔
تازہ ترین