• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ میں سرکاری ترامیم کو غیر آئینی قرار دیدیا

اسلام آباد (انصار عباسی) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق، قومی اسمبلی کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے جانے والے انتخابی اصلاحات کے بل میں کئی شقیں غیر آئینی ہیں، ادارے کا کہنا ہے کہ مجوزہ تبدیلیوں کے نتیجے میں الیکشن کمیشن جیسا ادارہ انتخابی اُمور جیسے اہم ترین معاملات میں کمزور ہو جائے گا۔ 

الیکشن کمیشن کی رائے ہے کہ انتخابی فہرستیں بنانے اور اس کی نظرثانی کا کام نادرا کے حوالے کرنے سے کمیشن کے اختیارات کم ہو جائیں گے، حالانکہ آئین میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایسا کوئی قانون نہیں ہوگا جس سے کمیشن کے اختیارات واپس لیے جا سکیں یا انہیں کم کر دیا جائے۔ 

جس وقت اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے الیکشن قانون میں تبدیلیوں کو قومی اسمبلی کے ذریعے تباہ کر دیا اور کوئی بحث ہی نہیں ہونے دی، لیکن قومی اسمبلی کی متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی سرکاری دستاویزات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں بل کی منظوری سے قبل الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا کہ حکومتی بل میں کئی شقیں ایسی ہیں جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں۔ 

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور نے الیکشن کمشن کی رائے پر بحث نہیں کی حالانکہ کمیشن نے تحریری طور بتایا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 17، 21، 24، 25، 26، 34، 44، 95، 104 اور 231 آئین کی خلاف ورزی ہیں۔ 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رائے پر غور کیے بغیر، حکومت نے پہلے یہ تبدیلیاں کمیٹی سے کلیئر کرائیں اور اس کے بعد اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت نے ان تبدیلیوں کو قومی اسمبلی سے منظور کرا لیا۔ 

تفصیلات کے مطابق، سیکشن 17؍ میں لکھا ہے کہ متعلقہ صوبوں کے ہر حلقے میں حدبندی رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائے گی، اس پر الیکشن کمیشن نے رائے دی تھی کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 51(5) کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس آرٹیکل میں واضح لکھا ہے کہ نشستوں کا تعین آبادی کی بنیاد پر ہوگا۔ اسی آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ حدبندی آبادی کی بنیاد پر ہوگی نہ کہ ووٹروں کی بنیاد پر۔ 

الیکشن کمیشن نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس ترمیم کے نتیجے میں آرٹیکل 51(5) میں بھی ترمیم کرنا پڑے گی کیونکہ اس آرٹیکل میں وفاق کی اکائیوں میں نشستوں کی تقسیم آبادی کی بجائے ووٹروں کی بنیاد پر کرنے کی شرائط کا تعین کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر مردم شماری کے بعد حدبندی کے نتائج سرکاری سطح پر شائع کیے جائیں۔ 

الیکشن کمیشن نے یہ بھی بتایا تھا کہ ترمیم کے نتیجے میں شہری علاقوں کی نشستیں بڑھ جائیں گی کیونکہ ایسے ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو عارضی طور پر شہروں میں مقیم ہیں، اس صورتحال سے کم ترقی یافتہ اور دراز کے علاقوں میں غم و غصہ پھیلے گا۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی بتایا تھا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر آبادی کی نمائندگی نہیں ہو پائے گی کیونکہ وسائل کی تقسیم کا بنیادی عنصر آبادی ہے۔ 

یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایسے ممالک جہاں وفاقی اکائیوں یا ریاستوں کا نظام ہے، جیسا کہ امریکا، کینیڈا اور بھارت، وہاں بھی حدبندی کیلئے آبادی کی شرط مقرر کی گئی ہے۔ لہٰذا، اس ترمیم کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ 

سرکاری بل میں سیکشن نمبر 24، 26، 28 سے 34 تک اور 44 کو حذف کر دیا حالانکہ الیکشن کمیشن نے اس پر اپنی رائے بھی پیش کی تھی: ’’مجوزہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 219(A) اور 222 سے متصادم ہے۔ آرٹیکل 219(A) میں کہا گیا ہے کہ الیکٹورل رول کی وقتاً فوقتاً نظرثانی کی جائے تاکہ اسے تازہ ترین (اپڈیٹ) رکھا جا سکے۔ 

یہ الیکشن کمیشن کا بنیادی کام ہے۔ آرٹیکل 222 میں ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی بھی قانون کے نتیجے میں الیکشن کمیشن یا کمشنر کے اختیارات میں کمی ہوگی، یہ بات آئین کے باب ہشتم کے حصہ دوم میں درج ہے۔ 

کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکٹورل رولز کی تیاری اور اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی الیکشن کمیشن کا بنیادی کام ہے اور ترمیم کے نتیجے میں یہ کام الیکشن کمیشن سے لیکر نادرا کو دیدیا جائے گا اور نادرا وفاقی حکومت کے انتظامی کنٹرول میں کام کرنے والا ادارہ ہے۔ 

الیکٹورل رولز میں کسی طرح کی خامی و خرابی کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو بھی اس کا مشترکہ ذمہ دار قرار دیا جائے حالانکہ الیکٹورل رولز کی تیاری و نظرثانی میں ترمیم کی وجہ سے کمیشن کا کوئی کردار ہی نہیں۔ 

الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ سیکشن 24؍ میں ترمیم کی وجہ سے کمیشن بے اختیار ہو جائے گا اور وہ رجسٹریشن افسران کو مقرر ہی نہیں کر پائے گا۔ رجسٹریشن افسر ہی وہ شخص ہے جو الیکٹورل رولز کی تیاری، نظرثانی اور درستگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ 

الیکشن کمیشن کے مطابق، سرکاری ترمیم کے نتیجے میں کمیشن کے اختیارات نادرا کو مل جائیں گے، یہ ترمیم عملی نہیں ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ ووٹروں کی رجسٹریشن کیلئے الیکشن کمیشن اپنا ڈیٹا نادرا کو دے گا۔ الیکٹورل رولز کا کام نادرا کو دینے کا مطلب ووٹروں کی رجسٹریشن کا کام بھی اسے سونپنا ہے حالانکہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت یہ اختیار خالصتاً الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے۔ 

سرکاری بل میں سیکشن 95(6) میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کامیاب امیدوار کے نام کا اعلان کرنے سے قبل الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسر کو ایک یا ایک سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کی دوبارہ گنتی کی ہدایت دے سکتا ہے۔ 

الیکشن کمیشن نے موجودہ قانون کے تحت اس پورے طریقہ کار پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ ترمیم کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کی وجہ سے 14؍ روز کے اندر نتائج کے اعلان کی آئینی پابندی پر عمل نہیں ہو پائے گا۔ 

سیکشن 104، جو پارٹی کی مخصوص نشستوں کی فہرست کے متعلق ہے، میں ترمیم کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم کے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 224؍ کے تحت کمیشن کیلئے 14؍ ر وز کے اندر تمام نشستوں بشمول مخصوص نشستوں کے نتائج کا اعلان کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 

بتایا گیا ہے کہ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج کے اعلان کے چار روز بعد مخصوص نشستوں کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے جس سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کو آئین کے آرٹیکل 51(6)(d) اور (e) کے تحت کسی بھی جماعت کا حصہ بننے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر عمومی نشستوں کے نتائج کے تین دن بعد ترجیحی فہرست فراہم کی جاتی ہے تو کمیشن آئین کے تحت نتائج کا اعلان نہیں کر پائے گا۔ 

کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے بھی شکوک ہیں کہ عمومی نشستوں کے نتائج کے اعلان کے بعد مخصوص نشستوں کے امیدوار پکی نشست حاصل کرنے کیلئے کرپشن میں ملوث ہو جائیں۔ 

ایک اور مجوزہ ترمیم یہ تھی کہ پارٹی ہر الیکشن یا ضمنی الیکشن پر اپنے امیدواروں کی نئی فہرست جمع کرائے گی چاہے پرانی فہرست منسوخ نہ ہوئی ہو۔ تاہم، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224(5) کے تحت امیدواروں کے اضافی نام صرف اسی صورت فراہم کیے جائیں گے جب پارٹی کی جانب سے فراہم کی گئی سابقہ فہرست منسوخ ہو چکی ہو۔ 

حکومت نے ایکٹ کے سیکشن 231 میں بھی ترمیم کی جو انتخابی امیدواروں کی اہلیت اور نا اہلیت کے متعلق ہے۔ ترمیم میں واضح کیا گیا کہ اہلیت اور نا اہلیت جانچنے کیلئے کٹ آف تاریخ اسکروٹنی کی تاریخ ہوگی۔ تاہم، یہ شق دو اکتوبر 2017ء کو نافذ ہوگی جس دن الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ 

کمیشن نے مذکورہ ترمیم کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62؍ اور 63؍ میں امیدوار کی دوبارہ اہلیت اور قومی اسمبلی یا سینیٹ کے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد کی صورتحال کا ذکر کیا گیا ہے، قانونی شق کے ذریعے آئین کی شق کے کام کرنے کے انداز کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، اس ترمیم کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

تازہ ترین