• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو ہفتے قبل (11جون کو ) میں نے یہ تجویز دی تھی کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے امداد کی غرض سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے پاس جانا چاہئے کیوں کہ اسکے بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ 19جون کو پروگرام سے قبل اس کی مانیٹرنگ کے سلسلے میں آئی ایم ایف مشن اس سلسلے میں پاکستان پہنچ رہا ہے اور اسلام آباد کو چاہئے کہ وہ اس موقع پر نئے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے مذاکرات کرے اور آئی ایم ایف کی قرضہ کی بقیہ رقم کی ادائیگی کیلئے امداد طلب کرے ۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سابقہ حکومت کے برعکس موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے میں دلچسی ظاہر کی ہے جس سے ملنے والی رقم کا حجم آئی ایم ایف کو ادا کی جانے والی بقیہ قرضے کی رقم کے برابر ہوگا۔ اگر جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو یہ پاکستانی معیشت کے وسیع تر مفاد میں ہوگااور اسے ملکی معیشت کی انتظامیہ کی جانب سے ایک احسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے جس پر وزیر خزانہ تعریف کے مستحق ہیں۔ قبل اس کے کہ میں نئے پروگرام کے ممکنہ ڈھانچے پر نکتہ چینی کروں ، یہاں نومبر 2008 ء کے گزشتہ پروگرام سے حاصل ہونے والے تجربات کو بیان کرنا موزوں ہو گا ۔ گزشتہ پروگرام کی خامیوں کو اجاگر کرنا حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بہتر پروگرام شروع کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ سال 2007-08ء کے دوران پاکستان کو مشترکہ طور پر اندرونی اور بیرونی خطرات کی وجہ سے غیر متوقع کی سی صورتحال کا سامنا رہا۔ عالمی سطح پر غذائی اجناس اور تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، نئی حکومت کو سیاسی طور پر اقتدار کی منتقلی میں سستی، سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور عالمی مالیاتی بحران نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ۔معاشی اور مالیاتی پالیسی کی ترتیب سے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بری طرح متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہوئے۔ پاکستان کے پاس قرضوں کی ادائیگی کی امداد کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے نومبر 2008ء میں (ایس بی اے پروگرام) ضرورت پڑنے پر استعمال کئے جانے والی امداد کا انتظام کیا گیا تاکہ اقتصادی مسائل سے نمٹا جاسکے اور معاشی نشوونما میں استحکام اور غربت کو ختم کیا جاسکے۔ایس بی اے پروگرام کا دورانیہ 23ماہ تھا اور اس کے تحت دی جانے والی امدادی رقم ایس ڈی آر5 / ارب 16کروڑ 90لاکھ ایس ڈی آر یا 7/ ارب0 6کروڑ امریکی ڈالر یا جو کہ آئی ایم ایف کے وسائل تک غیر معمولی رسائی کا 500فیصد کوٹے پر مشتمل تھا ۔جسے پروگرام پر نظرثانی کے بعد اس غیر معمولی رسائی کے کوٹے کو بڑھا کر700فیصد یا ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ 11/ارب امریکی ڈالر تک کردیا گیا ۔ اس پروگرام کے ذریعے سے پاکستان کو چار اہم شعبوں میں اقدامات کرنے تھے جن میں،1) ٹیکس اصلاحات،2 ) بجلی کے شعبے میں اصلاحات، 3 )بحران کا شکار قومی ادارو ں کی ساخت کی بحالی اور ان کی نجکاری، 4)مالیاتی منصوبہ بندیوں کو موثر بنانے کیلئے خود مختار مرکزی بینک کا قیام ، ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کیلئے اصلاحات پر توجہ دینا اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ کرنا شامل تھے۔ مختلف تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس درمیانے درجے تک جی ڈی پی میں 3فیصد تک اضافہ کرسکتا تھا تاہم کمزور سیاسی حمایت اور نجی اداروں ، سول سوسائٹی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مخالفت معاشی اصلاحات کے اس نئے ڈھانچے کے نفاذ میں رکاوٹ کا باعث بنی جبکہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات بھی ناکام رہیں اور بجلی کی قیمتوں میں دی جانے والی چھوٹ کو کم نہ کیا جا سکا جو کہ گشتی قرضے میں مزید اضافے کا باعث بنا۔ سرکاری اداروں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سیاسی نمائندوں کی عدم دلچسپی تھی جو ان اداروں میں ملازمین کو بطور سیاسی آلہ کار استعال کرتے ہیں۔اگرچہ مرکزی بینک کو خود مختار بنانے کیلئے کچھ اقدامات کئے گئے تھے تاہم وہ پروگرام کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔اس کے علاوہ سب سے اہم غلطی آئی ایم ایف پروگرام کے دورانیئے میں این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے سرمائے کی صوبوں تک منتقلی نے مالی پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے پیچیدگیوں میں مزید اضافہ کردیا، جس کے نتیجے میں قرضوں کی ادائیگی کے اہداف حاصل نہ ہوسکے۔
سابقہ پروگرام سے کیا سبق ملے؟ سب سے پہلا تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک کیلئے گزشتہ پروگرام کا حجم انتہائی زیادہ تھا۔ جن لوگوں نے سال 2008ء میں اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے وہ ناتجربہ کار تھے اور انہیں یہ بھی احساس نہیں تھا کہ آئی ایم ایف سے لی جانے والی اتنی بڑی رقم چند ہی برسوں میں واپس بھی لوٹانا پڑے گی۔ آج قوم ان کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور نئی حکومت گزشتہ دور میں حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام شروع کر رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایس بی اے پروگرام کے کچھ اہداف توقعات سے کہیں زیادہ تھے جنہیں 23ماہ میں عملدرآمد کرنا تھا۔مثال کے طور پر کم سے کم چھوٹ کے ساتھ ایک وسیع البنیاد ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کو متعارف کرانے کی بات کئی دہائیوں سے کی جارہی ہے تاہم مختصر عرصے میں ویٹ کا نفاذ یا جی ایس ٹی کی اصلاح کا ایک مشکل ہدف تھا۔ تیسرا سبق یہ کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات کا اصل دارومدار صرف بجلی پر آنے والی لاگت اور قیمتوں کے فرق کو ختم کرنا تھا۔ ایک مشاہدے کے مطابق اگرچہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وصولی میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم اس کی وجہ سے بجلی چوری میں اضافہ ہوا۔ چوتھا یہ کہ پروگرام میں طرز حکومت میں بہتری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔پانچواں یہ کہ پروگرام کے تحت طے ہونے والی اصلاحات اور اس کے نفاذ کے دورانیئے تک ایک محتاط رقم درکار ہوگی۔
نئے آئی ایم ایف پروگرام میں گزشتہ غلطیوں سے گریز کرنا ہوگا۔ میرے نقطہ نگاہ سے نئے پروگرام کے ڈھانچے میں چار اہم شعبوں میں توجہ دینا نہایت اہم ہوگا جن میں ٹیکس اصلاحات ، بجلی کے شعبے میں اصلاحات، قومی اداروں کی ساخت کی بحالی اور ان کی نجکاری اور مالی سرمائے کی عدم مرکزیت۔ ٹیکس اصلاحا ت کے معاملے میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ ملک میں وافر مقدار میں موجود وسائل کو بروئے کار لاکر بڑھتے ہوئے مالی اخراجات کو پوراکیا جاسکتا ہے جو کہ پاکستان کے دائمی مسائل میں شامل ہے۔ وسائل کو بروئے کار لانے سے ایک نئے پروگرام کو شروع کرنے کی اہم کڑی ثابت ہوسکتی ہے تاہم اس ضمن میں احتیاط برتنا ہوگی، خصوصاً مالی سرمائے کی عدم مرکزیت پر قابو پانا ہو گا۔ ٹیکس انتظامیہ کی اصلاحات پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی جو کہ عام طور پر ریٹس میں سختی نہیں برتتے ۔کمزور ٹیکس انتظامیہ کے ذریعے سے ٹیکس اصلاحات کا نفاذ یقینااس کی ناکامی کا باعث بنے گا۔ مرکزی سطح پرٹیکس انتظامیہ کمزور ہوچکی ہے،ادارے میں اندرونی رسہ کشی بڑھ چکی ہے اور گزشتہ کئی سالوں میں تجربہ کار اور قابل افسران کو تبدیل کیا جاچکا ہے۔ٹیکس انتظامیہ کو مضبوط کرنا نئے آئی ایم ایف پروگرام کی اصلاحات کا ایک اہم ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ پالیسی اصلاحات کے طریق کار کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے جن میں براہ راست ٹیکسوں کے نفاذ جی ایس ٹی اصلاحات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ براہ راست ٹیکس کے نفاذ سے کسی بھی طرح کی حاصل ہونے والی رقم کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا۔ موجودہ این ایف سی ایوار ڈ کی موجودگی میں ایک بامعنی مالیاتی پالیسی کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکتا اور ایک مستحکم معاشی صورتحال کا قیام ایک دیرینہ خواب ہی رہے گا۔ اگرچہ وفاق مالیاتی خسارے کے معاملے پر سنجیدہ ہے تاہم اس معاملے میں صوبوں کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا۔ مالی سرمائے کی عدم مرکزیت کی صورت میں میکرو اکنامک میں استحکام کیلئے مالیاتی نظم وضبط کے اقدامات صوبوں کی ذمہ داری ہوگی اور ایسی صورتحال میں وفاقی وزیر خزانہ مالیاتی خسارے کے اہداف صوبائی وزرائے خزانہ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کرسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کو صوبائی حکام کے ساتھ بھی ایک طویل مشاورت کرنا پڑے گی۔ بجلی کے شعبے میں موجودہ حکومت سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے تاکہ اس چیلنج سے نمٹا جاسکے۔حکومت کی جانب سے بجلی کے شعبے میں اصلاحات کیلئے وسیع، مختصر سے درمیانہ مدتی پروگرام تیار کیا جاچکا ہے، جن میں گردشی قرضے کا مسئلہ بھی شامل ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کے اصلاحات کے ایجنڈے میں کردار ادا کرسکتاہے۔تباہ شدہ سرکاری اداروں کی بحالی اور نجکاری کیلئے ان شعبوں کے ماہر افراد پر مشتمل انتظامیہ کی تقرری اور ان کیلئے اہداف کا تعین کر کے حکومت پہلے سے ہی اقدامات کرچکی ہے۔جب ان اداروں کی صورتحال بحال ہوجائے گی تو ہی حکومت کی جانب سے ان اداروں کی نجکاری پر غور کیا جاسکتا ہے۔حکومت کی یہ منصوبہ بندیاں نئے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے اصلاحات کا ایجنڈا تشکیل دے سکتی ہے۔ پس ٹیکس کو وسعت دینے کی بنیاد پر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، ٹیکس انتظامیہ کو بہتر کر کے ٹیکس ریٹ پر سختی سے عملدرآمد، جی ایس ٹی میں مزید اصلاحات، نئے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو ختم کر کے،بجلی کے شعبے میں اصلاحات کر کے، سرکاری اداروں کی ساخت کی بحالی اور ان کی نجکاری اور اس کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک کو خود مختار بنا کر نئے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے اصلاحی ایجنڈا تشکیل دیا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں وسیع تر سیاسی حمایت پروگرام کی کامیابی کیلئے موزوں ثابت ہوسکتا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف وزیر اعظم کے ساتھ معاہدے پر مشترکہ دستخط کا مطالبہ کر سکتا ہے۔جیسا کہ گزشتہ دور حکومت میں انہوں نے متعدد مرتبہ کیا تھا۔
تازہ ترین